وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے 2013 میں یونیورسٹی کے طلباء کے لیے لیپ ٹاپ اسکیم کا اجراء کیا گیا جو 2018 تک کامیابی سے جاری رہی، جس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت میں اس اسکیم کو بحال کرتے ہوئے اس اسکیم کے لیے بجٹ میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی تھی۔
پرائم منسٹر یوتھ لیپ ٹاپ اسکیم میں پاکستان کی 14 یونیورسٹیوں کو شامل رکھا گیا ہے، جن میں آزاد کشمیر کی 5، پنجاب کی 48، بلوچستان کی 10، سندھ کی 28، خیبرپختونخوا کی 30، دارالحکومت کی 18 اور گلگت کی 2 جامعات شامل ہیں، اسکیم کے مطابق مذکورہ یونیورسٹیوں کا ہر طالبعلم لیپ ٹاپ کے لیے حصول کی اہلیت رکھتا تھا۔
مگر حال ہی میں اس اسکیم کے تحت دیے جانے والے لیپ ٹاپ آخری سمسٹر پاس کرنے والے طلبا کو نہیں دیے گئے جبکہ ان کی رجسٹریشن بھی کامیابی سے ہوئی اور لیپ ٹاپ ملنے والے طلباء کی نام کی فہرست میں بھی ان کے نام شامل تھے، آخر اس کے باوجود طلباء کو لیپ ٹاپ کیوں نہیں دیے گئے؟
مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء کی جانب سے موصولہ شکایات کے مطابق انہوں نے جب درخواست دی تھی تو وہ یونیورسٹی کے طالب علم اور لیپ ٹاپ اسکیم کے اہل بھی تھے کیونکہ جب انہوں نے درخواست دی تھی تو ان کا آخری سمسٹر چل رہا تھا، لیکن لیپ ٹاپ کی تقسیم سے قبل وہ یونیورسٹی سے فارغ ہو گئے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسلامک یونیورسٹی کی طالبہ زارا اشفاق نے بتایا کہ وہ اپنی کلاس کی پوزیشن ہولڈر ہیں اور ان کے ساتھ ان کی کئی کلاس فیلوز نے بھی لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے درخواست دی تھی، ان میں سے 1 طالبہ نے سمسٹر فریز کروا دیا اور کچھ طالبات فیل ہونے کی وجہ سے گریجویٹ نہ ہوسکیں۔
’درخواست تو سب نے دی تھی، میں ٹاپر ہوں لیکن لیپ ٹاپ کے اجراء سے قبل ہی یونیورسٹی ختم ہو گئی، اب ہماری رجسٹریشن بھی ہو چکی تھی، لسٹ میں بھی نام آ گیا تھا، لیکن اب ہم یونیورسٹی سے پاس ہو گئے تو کہا جا رہا ہے آپ کو لیپ ٹاپ نہیں مل سکتا، جبکہ سمسٹر فریز کرنے یا فیل ہونے والی طالبات تکنیکی بنیادوں پر ابھی تل یونیورسٹی کا حصہ ہونے کے باعث لیپ ٹاپ کی اہل ہیں۔‘
مزید پڑھیں
زارا اشفاق کے مطابق جب انہوں نے لیپ ٹاپ کے لیے درخواست دی تھی تو وہ یونورسٹی کی طالبعلم تھیں اور میرٹ پر رجسٹریشن کے باعث ان کا لیپ ٹاپ حاصل کرنا یقینی بھی تھا۔ ’اگر ان چیزوں کو دیکھا جائے تو لیپ ٹاپ میرٹ پر تو نہیں دیے جا رہے۔‘
ایل ایل بی کرنے والے عاطف صدیقی بھی انہی مایوس طلبا میں شامل ہیں جو لیپ ٹاپ ملنے سے محروم رہ گئے ہیں۔ ’ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر لیپ ٹاپ اسکیم کے بیان کردہ رولز کے مطابق جو طلبا 30 جون 2023 تک متعلقہ یونیورسٹی کا طالبعلم ہے وہ لیپ ٹاپ اسکیم کے تحت درخواست دینے کا اہل ہے، اور پھر ساتھ ہی لکھا ہے کہ وہ طلباء جو پاس کرچکے ہیں وہ اہل نہیں ہیں۔‘
عاطف صدیقی کے مطابق اس اسکیم کے تحت لیپ ٹاپ کی تقسیم کی تعریف واضح نہیں ہے، جب اس اسکیم کے تحت 2019 کے طلباء نے 2023 جون میں گریجویٹ ہو جانا ہے اور یہ چیز بالکل واضح ہے تو پھر تاریخ 30 جون 2023 کے بجائے 2022 کیوں نہیں رکھی گئی، یہ نا اہلی ہے کہ واضح چیزوں کو بھی مد نظر نہیں رکھا گیا۔
’مجھ سمیت باقی تمام طلبا کو ان کے فوکل پرسن کی جانب سے کہا گیا کہ آپ لوگوں کے نام آ چکے ہیں اور سب کو لیپ ٹاپ ملیں گے، لیکن پھر اس کے بعد پھر ایچ ای سی کی طرف سے یہ کہا گیا کہ وہ تمام طلبا جو پاس کرچکے ہیں، وہ لیپ ٹاپ کے اہل نہیں ہیں، پہلے ہمیں کیوں کہا جاتا رہا کہ ملے گا اور پھر اچانک سے یہ کہہ دیا کہ آپ کو نہیں مل سکتا، ایچ ای سی کی طرف سے پالیسی کو کیوں تبدیل کیا گیا۔‘
ہائیر ایجوکشن کمیشن کے ترجمان وسیم خالق داد سمجھتے ہیں کہ ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر بہت واضح طور پر یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی بھی طالب علم 30 جون تک یونیورسٹی میں انرول ہے تو وہ اپلائی کر سکتا ہے۔ ’۔۔۔اور پھر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ سلیکشن کے باوجود اگر کوئی بھی لیپ ٹاپ ڈسٹری بیوشن سے قبل ڈگری مکمل کر لیتا ہے تو وہ اہل نہیں ہوگا۔‘
ترجمان ہائیر ایجوکشن کمیشن کے مطابق سمسٹر فریز کروانے یا پھر فیل ہونے والے طلباء کو بھی لیپ ٹاپ نہیں ملیں گے اور اس سے متعلق قیاس آرائیاں درست نہیں ہیں، کیونکہ وہ پورا بیچ پاس کر چکا ہے تو اس پورے بیچ کے طلباء لیپ ٹاپس کے اہل نہیں رہے، اب چاہے کوئی طالبعلم یونیورسٹی میں اب بھی انرول ہو یا نہیں۔
پالیسی کو تبدیل کرنے کے حوالے سے ترجمان نے بتایا کہ پہلے اس اسکیم کے تحت پاس ہونے والے طلبا کو بھی لیپ ٹاپ دیے جا چکے ہیں، لیکن اب ایسے طلباء کو لیپ ٹاپ نہیں مل سکتے جو پاس ہو چکے ہیں کیونکہ اس اسکیم کا مقصد ان طلبا کو سہولت میسر کرنا ہے جو ابھی پڑھ رہے ہیں۔
’یہی وجہ ہے کہ اس اسکیم کی اہلیت میں تبدیلی کی گئی ہے کیونکہ پاس ہونے والے طلباء ملازمت کرتے ہوئے لیپ ٹاپ خرید سکتے ہیں، لیکن یونورسٹیوں میں انرول طلبا کے لیے پڑھائی کے ساتھ نوکری کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور ہر کوئی نہیں اتنے اخراجات برداشت نہیں کر پاتا۔‘