اقتدار کے خاتمے اور 9 مئی کے پُرتشدد واقعات کے بعد سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف زیر عتاب ہے اور مشکلات سے دوچار ہے۔ حسب روایت موسمی سیاستدان اڑان بھرنے لگے ہیں۔ لاتعلقی اور سیاست سے کنارہ کشی کے بعد ہی کنگ میکر سے مل کر سابق رہنماؤں نے 2 الگ الگ کنگ پارٹیوں کی داغ بیل ڈالنے میں دیر نہیں کی۔
پاکستان میں الیکشن کے قریب آتے ہی کنگ میکرز کی جانب سے کنگ پارٹیز بنانا کوئی نئی بات نہیں، پاکستانی سیاست میں اس کی لمبی تاریخ ہے۔ اسی طرح ہوتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس 160 سے زیادہ سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔
پاکستان میں کنگ پارٹیوں پر مختصر نظر
پاکستان تحریک انصاف حکومت کے خاتمے کے بعد زیر عتاب ہے اور ماضی کی طرح عمران خان کے ساتھی مشکل میں الگ ہو کر کنگ پارٹیز کا حصہ بن رہے ہیں جو پاکستانی سیاست کی طویل روایت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو توڑنے اور تقسیم در تقسیم کرنے میں فوجی حکمرانوں کا بھی اہم کردار رہا ہے۔
مزید پڑھیں
کنگ پارٹیاں بنانے میں سابق ایئر مارشل اصغر خان کا نام سر فہرست ہے۔ ان کی جماعت سے نواز شریف اور دیگر اہم سیاسی شخصیات نے عملی سیاست کا آغاز کیا۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی جماعت ہو گی جو اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے بغیر بنی ہو یا اس پر یہ الزام نہ ہو۔
سابق فوجی حکمران ضیاالحق کے دور میں مسلم لیگ تقسیم در تقسیم ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے قریبی ساتھی ساتھ چھوڑ گئے۔ اس کے بعد پرویز مشرف کے دور میں ق لیگ وجود میں آئی۔
الیکشن 2024 کی کنگ پارٹیاں
سال 2024 کے عام انتخابات کے لیے کنگ پارٹیاں جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کے حصے میں آئی ہیں۔
عمران خان کے سابق قریبی ساتھی اور پارٹی اے ٹی ایم کہلانے والے جنوبی پنجاب سے کامیاب بزنس مین و سیاست دان جہانگیر ترین نے پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے جماعت بنالی اور مقامی فائیو اسٹار ہوٹل میں اس کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اہم سیاسی قائدین ان کی جماعت کا حصہ ہوں گے اور وہ حکومت میں آ کر ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پنجاب میں باقاعدہ طور پر سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔
دوسری جانب عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی پہلی بار آنے والی تبدیلی حکومت کو خیبرپختونخوا میں لیڈ کرنے والے پرویز خٹک بھی کنگ میکرز کے ہاتھ لگ گئے اور تحریک انصاف کو تقسیم کرنے میں پہل کرتے ہوئے الگ پارٹی بنا لی۔
یہ بھی پڑھیں پرویز خٹک عام انتخابات میں تاخیر کیوں چاہتے ہیں؟
سیاسی جماعتوں کا تعلق براہِ راست عوام سے ہوتا ہے اور ماضی میں نئی پارٹیوں کا اعلان اکثر عوامی جلسوں میں ہوتا آیا ہے لیکن پرویز خٹک نے بھی جہانگیر ترین کی طرح پشاور کے ایک عام شادی ہال میں 50 سے 60 افراد کی موجودگی میں نئی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز (پی ٹی آئی پی) کا اعلان کیا۔ پرویز خٹک خود نئی کنگ پارٹی کے چیئرمین بن گئے اور بغیر کسی تاخیر کے 2024 کے عام انتخابات میں صوبے میں حکومت بنانے کا دعویٰ کرکے خود کو وزیر اعلیٰ کے لیے امیدوار بھی نامزد کر دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دونوں کنگ پارٹیاں عوام میں اتنی مقبول ہو چکی ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکیں، ’وی نیوز‘ نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار اعزاز سید نے دونوں جماعتوں (استحکام پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز) کو 2024 کے عام انتخابات کی کنگ پارٹیز قرار دیا۔
دونوں پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں، اعزاز سیّد
وی نیوز کو تجزیہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے، غصے سے بچنے اور سیاست میں رہنے کے لیے بنائی گئیں ہیں۔
’اس میں کوئی شک نہیں کہ جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی کنگ پارٹیاں ہیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لیے ہی بنائی گئی ہیں تاکہ سیاسی گراؤنڈ پر رہا جا سکے۔ اس وقت وہ نہیں کہتے کہ کنگ پارٹیز تانگا پارٹیز ہیں لیکن وقت ثابت کرے گا یہ اصل میں تانگا پارٹیز ہی ہیں‘۔
طاقتور حلقوں کی حمایت کے باوجود جہانگیر ترین اور پرویز خٹک غیر مقبول کیوں؟
نئی جماعتیں بنانے کے بعد جہانگیر ترین اور پرویز خٹک نے اپنے اپنے صوبوں میں عوامی رابطہ مہم بھی سب سے پہلے شروع کر دی ہے۔ جہانگیر ترین نے اپنے پہلے جلسے میں عمران خان کو نشانے پر رکھا اور تنقید کے نشتر برسائے۔ ساتھ ملکی سیاست کے حوالے سے مصالحتی لہجہ اپنایا اور سماجی و عوامی بہبود کے کاموں پر زور دیا۔ انہوں نے چند افراد پر مشتمل نئی جماعت کی حکومت بنانے کا دعویٰ کیا اور حکومت میں آنے کے بعد غریب طبقے کو ریلیف دینے کا اعلان بھی کیا۔
یہ بھی پڑھیں کیا عام انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد ہو گا؟
خیبر پختونخوا میں کنگ پارٹی کے خالق پرویز خٹک نے نئی جماعت کا پہلا عوامی جلسہ اپنے حلقے مانکی شریف نوشہرہ میں کیا جس میں کافی بڑی تعداد میں ان کے حمایتی شریک ہوئے۔ جو ابھی تک پرویز خٹک کا سب بڑا جلسہ ثابت ہوا۔ دعوؤں اور طاقتور حلقوں کی مبینہ مکمل حمایت کے باوجود بھی پرویز خٹک اپنے سیاسی مخالفین کو کچھ زیادہ ٹف ٹائم نہیں دے سکے۔
اعزاز سیّد نے بتایا کہ دونوں جماعتیں عوامی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی عوامی مقبولیت حاصل نہ کرنے کی بڑی وجہ آئی پی پی اور پی ٹی آئی پی میں کوئی ایسا چہرہ نہیں ہے جو عوامی مقبولیت کا حامل ہو۔ ’جہانگیر ترین اور پرویز خٹک اہم عہدوں پر رہے ہیں۔ ان کی اپنی حیثیت اہم ہے لیکن عوامی سطح پر ان کی بھی مقبولیت نہیں جس کی وجہ سے ان کی پارٹیاں مقبولیت حاصل نہیں کر پا رہی‘۔
جہانگیر ترین کا اپنا کوئی ووٹ بینک نہیں، عارف ملک
لاہور کے سینیئر صحافی عارف ملک کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین نے پارٹی تو بنالی ہے لیکن ان کی جماعت عوام میں مقبول نہیں ہو رہی۔ جہانگیر ترین اور ان کے ساتھ موجود قائدین کا کوئی ووٹ بینک نہیں، اس جماعت میں شامل زیادہ تر سابق ارکان اسمبلی عمران خان کے نام پر منتخب ہوئے تھے۔
عارف ملک نے بتایا کہ جہانگیر ترین کی جماعت عوامی رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہے اور انہیں کھلی آزادی حاصل ہے لیکن اس کے باوجود بھی ایک بھی بڑا جلسہ نہیں کیا۔ ’استحکام پاکستان پارٹی کے تمام جلسے کچھ خاص کامیاب نہیں رہے۔ جلسے میں 400 سے 500 لوگ ہوتے ہیں‘۔
ان کا کہنا ہے کہ مجموعی طور دیکھا جائے تو جہانگیر ترین کی پارٹی میں کوئی ایسا چہرہ نہیں ہے جس کا اپنا ووٹ بینک ہو۔ علیم خان کی بھی یہی صورت حال ہے۔ جہانگیر ترین کا بیٹا ماضی میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ضمنی الیکشن ہار گیا تھا۔ جبکہ علیم خان کو بھی سابق اسپیکر ایاز صادق کے مقابلے میں ضمنی الیکشن میں شکست ہوئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ جہانگیر ترین کی پارٹی کا ہدف پی ٹی آئی ہے اور سابق اراکین کو شامل کر رہی ہے اس کے باوجود بھی تحریک انصاف کے ووٹ بینک پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
پرویز خٹک کیا کر رہے ہیں؟
پرویز خٹک اپنی نئی کنگ پارٹی کو مضبوط کرنے اور اگلی حکومت بنانے کا خواب لے کر دن رات سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ سینیئر صحافی فدا عدیل کے مطابق پرویز خٹک مسلسل کوششوں کے باوجود بھی عوام میں جگہ نہیں بنا سکے۔ ’پرویز خٹک کا ہدف ان کی سابقہ جماعت پی ٹی آئی ہی ہے۔ لیکن مسلسل کوششوں کے باوجود کسی اہم شخصیت کو شامل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے‘۔
مسلسل کوششوں کے باوجود پی ٹی آئی کا ووٹ بینک توڑا نہیں جا سکا، فدا عدیل
انہوں نے مزید کہاکہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔ مسلسل کوششوں کے باوجود بھی ووٹ بینک کو توڑا نہیں جا سکا۔ ’نئی پارٹی بنانے کے بعد پرویز خٹک کی اپنی پوزیشن کمزور ہو گئی ہے، جیسا وہ سوچ رہے تھے حالات ایسے نہیں رہے‘۔”
ان کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک ابھی تک کوئی بڑا جلسہ نہیں کر سکے۔ بلدیاتی نمائندے اور کچھ سابق اراکین ان کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیتنے کے قابل شخصیات ان کے قافلے میں بہت کم بلکہ نا ہونے کے برابر ہیں۔
پرویز خٹک کسی کو برداشت نہیں کرتے، عارف حیات
صحافی اور تجزیہ کار عارف حیات کا ماننا ہے کہ پرویز خٹک عوامی شخصیت ہی نہیں ہیں۔ ’پرویز خٹک کسی کو برداشت نہیں کرتے، اسی وجہ سے تحریک انصاف میں اکثر لوگ انہیں پسند نہیں کرتے تھے‘۔
انہوں نے بتایا کہ پرویز خٹک ہمیشہ فیصلہ خود کرتے ہیں۔ کسی سے مشورہ بھی نہیں کرتے۔
’بھائی نئی پارٹی کا اعلان عوام میں کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ 10 سے 15 لوگوں کو ایک شادی ہال میں جمع کرکے کان میں بتایا جائے کہ میں نے پارٹی بنائی ہے۔ ایسے اعلان کا انجام سامنے نظر آ رہا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں ‘سوئے ہوئے ہو تم ‘، عوامی مقبولیت کا سوال پوچھنے پر پرویز خٹک نے صحافی کو ڈانٹ دیا
عارف حیات ملک کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک خود پارٹی کے چیئرمین ہیں، خود کو ابھی سے ہی وزیراعلیٰ امیدوار قرار دیا ہے۔ لیکن عوامی چہرہ ایک بھی ساتھ نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ جتنی سختی تحریک انصاف پر ہے اس کے مقابلے میں پرویز خٹک کو کھلی چھوٹ ہے۔ اکثر انتظامات میں مکمل معاونت مل جاتی ہے۔ ’آج کل صوبے میں نگراں نہیں بلکہ پرویز خٹک کی حکومت ہے۔ سب کچھ اس سے پوچھا جاتا ہے‘۔
انہوں نے کہا ماضی میں کنگ پارٹیوں نے حکومت بھی کی لیکن آخر میں تانگا پارٹیاں ہی کہلاتی ہیں۔ جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی پارٹیاں ابھی سے ہی ٹریک سے باہر نکل گئی ہیں۔