بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں وزارتِ اعلی کے منصب پر ماسوائے جام یوسف کوئی بھی سیاسی شخصیت اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پائی لیکن اس کے باوجود وزیر اعلی کی کرسی کے حصول کے لیے سیاسی شخصیات اپنے گھونسلوں کو الوداع کہنے کے بعد ہر ممکن حربہ اپنا رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئندہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد صوبے میں سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے، بلوچستان کی نامور سیاسی شخصیات، سردار، نواب اور الیکٹیبلز اپنی سیاسی وفاداریاں سمیٹتے ہوئے نئی منزل کی جانب گامزن ہو چکے ہیں۔
بات کی جائے اگر وزارتِ اعلی کی تو اس دوڑ میں آئندہ انتخابات میں بڑے سیاسی اور قبائلی شخصیات پنجہ آزمائی کرنے جارہی ہیں، حال ہی میں مرکزی سیاسی جماعتوں کا بلوچستان کا رخ اور اہم سیاستدانوں کی ان جماعتوں میں شمولیت بھی اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ وزارتِ اعلی کا منصب صوبے میں حاصل کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔
بلوچستان میں وزراتِ اعلی کے منصب کے خواہش مندوں میں مسلم لیگ ن سے سابق وزیرِاعلی اور حال ہی میں ن لیگ میں شامل ہونے والے جام کمال خان، سابق وزیرِاعلی اور حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے عبدالقدوس بزنجو اور پی پی پی سے سابق وزیرِاعلی و چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ زہری جبکہ جمعیت علمائے اسلام ف کے سابق وزیرِاعلی و چیف آف سراوان نواب اسلم رئیسانی بھی وزیرِاعلی کی اس دوڈ میں پیچھے نہیں۔
بات کی جائے صوبے کی قوم پرست و دیگر سیاسی جماعتوں کی تو بلوچستان نیشنل پارٹی سے سردار اختر جان مینگل، نیشنل پارٹی سے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر مالک بلوچ، بلوچستان عوامی پارٹی سے خالد مگسی سمیت کئی اہم سیاسی و قبائلی شخصیات وزیرِ اعلی کے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں آئندہ عام انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے کیونکہ اس بار نہ صرف صوبے کی قوم پرست، مذہبی و دیگر سیاسی جماعتیں انتخابات میں سبقت لینے کی کوشش کریں گی بلکہ مرکز کی سیاسی جماعتوں بھی عوام کا ووٹ اپنی جانب مائل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔
اس بات میں کوئی 2 رائے نہیں کہ آئندہ آنے والی حکومت میں 2 سے 3 سیاسی جماعتیں حصہ دار ہوں گی جس کی وجہ سے وزرات اعلی کے لیے انتخاب اور مشکل تر ہوتا جائے گا، حالیہ سیاسی تبدیلیاں اس بات کی جانب اشارہ کررہی ہیں ایک بار پھر مسلم لیگ ن صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب رہے گی اور 2013 والی حکومت کا سین دیکھنے کو ملے گا جس میں ڈھائی ڈھائی سال کے لیے دو امیدوار وزیرِاعلی کے منصب پر فائز رہے تھے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے سینئر صحافی عبید آغا نے کہا کہ بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ مختلف مذہبی، نظریاتی و قوم پرست سیاسی جماعتوں کی 2 درجن سے زائد شخصیات وزارتِ اعلی کی دوڑ میں شامل ہیں۔
’ان میں ایسی شخصیات بھی شامل ہیں جو اس وقت منظرِعام پر تو نہیں لیکن وقت آنے پر وہ لوگ وزیرِاعلی کے سب سے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں۔‘
عبید آغا کے مطابق مسلم لیگ ن کے پاس وزراتِ اعلی کے منصب کے لیے جام کمال کی شکل میں ایک مضبوط امیدوار موجود ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) نے حالیہ دورے کے موقع پر مختلف جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے وعدے کر رکھے ہیں۔
’جس سے یہ تاثر ملتا ہے ایک بار پھر وہی ڈھائی ڈھائی سال والی حکومت کا فارمولا کارگر ہوگا، لیکن اگر بات کی جائے پاکستان پیپلز پارٹی کی تو اس کے پاس وزراتِ اعلی کے منصب کے لیے کئی امیدوار موجود ہیں، جن میں منظر عام پر آنے والے چہروں کے علاوہ پسِ پردہ امیدوار بھی ہیں۔‘
’یہ پس پردہ شخصیات وزارتِ اعلی کے منصب کے لیے کسی وقت بھی متحرک ہوسکتے ہیں، تاہم آئندہ انتخابات کے بعد ممکنہ طور پر ایسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے کہ ایک دور حکومت میں تین وزیرِاعلی اس منصب پر براجمان ہوں۔‘