قوم پرستی ایسا مرض ہے جسے بروقت نہ روکا گیا تو یہ ناسور بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بد قسمتی سے ایسا ہی کچھ پاکستان اور پاکستانی جامعات میں ہورہا ہے۔ اس مرض کے باعث عدم تشدد کی روش بڑھتی جا رہی ہے اور آئے روز لڑائی جھگڑوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
27 فروری 2023 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع قائد اعظم یونیورسٹی میں طلبا تنظیموں میں قوم پرستی کی بنیاد پر تصادم ہوا جس کے باعث 16 طلبہ زخمی ہوئے۔
اسی نوعیت کا جھگڑا یکم مارچ 2023 کو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بھی پیش آیا جس میں دو طلبا تنظیموں کے درمیان جھگڑا ہوا۔ پتھراؤ کے ساتھ ساتھ اسلحے کا بھی استعمال دیکھنے میں آیا۔ سرپھٹول ہونے کے بعد پولیس یونیورسٹی پہنچی اور فائرنگ میں ملوث ملزم سمیت متعدد طلبا کو گرفتار کرلیا گیا۔
ان جیسے بڑھتے واقعات کی وجوہات جاننے کے لیے جب وی نیوز نے قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسرز سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا ’ایسے معاملات کی مختلف وجوہات ہیں جن میں طلبا تنظیمیں سب سے اہم ہیں، لیکن وہ واحد نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ فیکلٹی ممبران اور ایڈمنسٹریشن بھی شامل ہیں‘۔
فیکلٹی ممبران کیسے اس معاملے کا حصہ ہیں؟
قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر منیر احمد نے بتایا کہ ’جب سے یونیورسٹی نے انڈر گریڈ پروگرام شروع کیے ہیں تب سے ایسے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس عمر میں بچے نادان ہوتے ہیں۔ وہ نہ ٹیچرز کو کوئی خاص توجہ دیتے ہیں اور نہ پڑھائی کو۔ اس وجہ سے طلبہ کے پاس بہت فالتو وقت ہوتا ہے۔ اسی فراغت کے سبب کئی طلبا منشیات کا استعمال بھی شروع کردیتے ہیں اور ہر فضول سرگرمی میں ان کی دلچسپی ہوتی ہے‘۔
پروفیسر منیر احمد کا مزید کہنا تھا کہ ’چونکہ ہر صوبے سے طلبہ یہاں پڑھنے آئے ہوتے ہیں لہٰذا قومیت اور لسانی تفریق اس طرح کے تنازعات کی بڑی وجہ بنتی ہے‘۔
پروفیسر منیر کے مطابق ’لڑائی جھگڑوں کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ ہر یونیورسٹی میں مختلف ثقافتی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں اور اگر ان تقریبات میں کوئی بھی چیز دوسرے کی ثقافت کے منافی ہو تو وہ اختلاف کی وجہ بنتی ہے اور وہ اختلافات اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ بات مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے‘۔
وی نیوز نے قائداعظم یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر راجا قیصر احمد سے رابطہ کرنے کی کئی بار کوشش کی مگر انہوں نے اس معاملے پر بات نہیں کی۔
صورتحال کو مزید سمجھنے کے لیے جب وی نیوز نے قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں طلبا کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا جس کے باعث انتظامیہ طلبہ کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ اپنی ناکامی چھپانے کے لیے اس طرح کے تنازعات میں بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔
’صورتحال سے باخبر ہونے کے باوجود انتظامیہ چپ رہی‘
قائداعظم یونیورسٹی کے طلبا صفی اللہ نے بتایا کہ یونیورسٹی میں نصف درجن طلبا تنظیمیں متحرک ہیں جو اپنی قومیت کے طلبہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ انہوں نے واقعہ سے متعلق بتایا کہ ’ایک طلبا تنظیم نے 2022 میں ہڑتال کا اعلان کیا اور یونیورسٹی کو بند کردیا تھا۔ اس دوران ایک دوسری طلبا تنظیم نے خلاف ورزی کرنے کی کوشش کی اور یوں ان دونوں تنظیموں میں جھگڑا ہوگیا۔ لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ صورتحال بگڑنے سے پہلے ہی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور صورتحال پُرامن طریقے سے قابو میں آگئی‘۔
صفی اللہ نے مزید بتایا کہ ’بظاہر تو سب کچھ ٹھیک ہوچکا تھا لیکن اچانک چند روز قبل 19 فروری 2023 کو ان دونوں تنظیموں میں ایک بار پھر جھگڑا ہوگیا جس میں درجنوں طلبا زخمی ہوگئے‘۔
صفی نے ہمیں بتایا کہ ’اس پوری صورتحال میں سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انتظامیہ صورتحال سے مکمل طور پر آگاہ تھی لیکن اس کے باوجود وہ خاموش تماشائی بنی رہی، حالانکہ وہ صورتحال کو قابو کرسکتی تھی‘۔
طالب علم طفیل داوڑ نے وی نیوز کو بتایا کہ ’یونیورسٹی میں طلبا کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ یونیورسٹی کا انفراسٹرکچر اس کا بوجھ اٹھانے سے قاصر نظر آتا ہے۔ صورتحال اس قدر خراب ہے کہ لیکچر لینے کے لیے کلاس رومز تک موجود نہیں ہوتے۔ اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لیے انتظامیہ اس طرح کے حالات پیدا کرتی ہے تاکہ ان کی خامیوں پر کسی کی توجہ نہ جاسکے‘۔
ایک سوال پر طفیل داوڑ نے کہا کہ یونیورسٹی میں کوئی مستقل وائس چانسلر نہیں، یہی وجہ ہے کہ ان تمام تر حالات پر جرأت مندانہ فیصلہ کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔
قائداعظم یونیورسٹی کے دیگر طلبہ کی جانب سے بھی کہا گیا کہ ان مسائل کے حل کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبا تنظیموں کے درمیان مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ اور طلبا کونسلز اپنے تحفظات اور شکایات پرمل بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ ایک غیرجانبدار ثالث بھی مقرر کرسکتے ہیں تاکہ کوئی درمیانہ راستہ نکالا جاسکے۔
قائداعظم یونیورسٹی میں قائدین اسٹوڈنٹ فیڈریشن کیا ہے؟
قائدین اسٹوڈنٹ فیڈریشن وہ ادارہ ہے جس میں تمام 6 کونسلیں شامل ہیں اور جب کسی 2 کونسلوں کے مابین کوئی مسئلہ یا جھگرا ہوتا ہے تو دیگر کونسلز ثالث بننے کی کوشش کرتی ہیں اور اسے حل کرتی ہیں اور وہ قائدِاعظم یونیورسٹی کے تمام طلبہ کی نمائندگی کرتی ہے۔