دُنیا کی سیاست میں ایسے اہم موڑ آتے ہیں جہاں سیاسی جماعتیں حالات کے مطابق اپنا رخ متعین کرتی ہیں۔ پاکستان کی سیاست کو تو آئے روز ایسے حالات کا سامنا رہا ہے جہاں انہیں چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی نئی صف بندیاں کرنا پڑتی ہیں۔
ایسا بھی ہوا کہ بائیں بازو کی جماعتوں کو دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کرنا پڑی۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز جسے ہمیشہ سے دائیں بازو کی جماعت تصور کیا جاتا رہا ہے، اسے بیشتر مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا پڑی حتیٰ کہ اپنی سخت ترین حریف جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت بھی کرنا پڑا۔
دونوں جماعتوں کو احساس ہوگیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کم کرنے یا روکنے کے لیے ایک معاہدہ کرنا ہو گا کہ وہ ایک دوسرے کی ٹانگ نہیں کھینچیں گے اور جس کی بھی حکومت ہو اسے اپنی مدت ہر حال میں پوری کرنے کا موقع دیا جائے گا۔
اس سے قبل 1988 سے 1999 تک دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کرتی رہیں جس کے نتیجے میں کوئی بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکا اور اس کا فائدہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ نے اٹھایا۔
جنرل مشرف دور کے بعد ملک کی ان 2 بڑی جماعتوں کو دوبارہ اقتدار ملا تو تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سیاسی حکومت نے اپنی مدت پوری کی مگر وزیراعظم عدالتوں کی بھینٹ چڑھا دیے گئے۔ پھر عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف سامنے آگئی جس نے ان دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کو چور ڈاکو قرار دیتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی تو حاصل کی مگر افسوس عمران خان بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکے اور تاریخی عدمِ اعتماد کی تحریک کے ذریعے انہیں بھی گھر جانا پڑا۔
عمران خان نے ایک ایسی بھرپور تحریک کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں انہیں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور ساتھیوں کے مشوروں کے برعکس انہوں نے پہلے تو قومی اسمبلی سے استعفے دیے اور پھر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کا مطالبہ کردیا جو آج تک نہیں ہوسکے۔
اگرچہ انہوں نے اسمبلیاں توڑنے کے اپنے عمل پر پشیمانی کا اظہار کیا مگر ساتھیوں کی رائے کو نظرانداز کرتے ہوئے ملک کی بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں سے الیکشن کے معاملے پر مذاکرات کرنے سے صاف انکار کردیا۔
عمران خان ہمشیہ کہتے رہے کہ وہ ان چور ڈاکوؤں کے ساتھ کبھی نہیں بیٹھیں گے۔ آج وہ اور ان کی جماعت کے بیشتر رہنما اور کارکن لاتعداد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
حال ہی میں عمران خان نے پارٹی قیادت بیرسٹر گوہر خان کے سپرد کردی ہےاور ایسی خبریں بھی آنے لگی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف ملک کی دیگر جماعتوں سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ جس سے یہ تاثر بھی ملنے لگا ہے کہ شاید عمران خان اپنی ضد چھوڑ کر کچھ حد تک آمادہ ہوگئے ہیں کہ ان کی جماعت کو سیاسی ڈائیلاگ کا حصہ بننا چاہیے۔
2014 کے دھرنے سے انتقامی سیاست کا آغاز کرنے والے عمران خان نے تقریباً 10 سال اس ملک میں افرتفری اور نفرت انگیز سیاست کا پرچار جاری رکھا جس سے غیر سیاسی لوگ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے۔
ان کے اپنے دور حکومت کو تاریخ دان ایک ناکام دور کے طور پر یاد رکھیں گے جس کا اظہار ان کے اپنے ساتھی بھی اکثر اوقات کرتے ہیں کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو مدت پوری کرنے دی جاتی تو اگلے الیکشن میں پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑتا۔
پارٹی چیئرمین شپ سے دستبرداری اور مذاکرات کی حامی بھرنے سے ان کی مقبولیت کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا بلکہ سیاست میں ان کے قد میں اضافہ ہی ہوگا۔
اپنے تمام سیاسی حریفوں کو جیلوں میں ڈال کرعمران خان جلد بازی میں بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے تھے مگر شاید وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ سیاست ایک لمبی جدوجہد کا نام ہے اور پاکستان جیسے ملک میں تو یہ ناممکنات میں شامل ہے۔
کل وہ کسی کے ’لاڈلے‘ تھے آج کسی اور کے ’لاڈلہ‘ بننے پر وہ خود اور ان کی جماعت حیرت زدہ ہیں۔ انہیں غور کرنا پڑے گے کہ ان کی وجہ سے ملک میں سیاسی ’خلا ‘کس قدر کم ہوئی ہے جسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے انہیں ایک اور طویل جدوجہد کرنا پڑے گی اور انہیں ایسے تمام حلقوں کا ساتھ دینا ہو گا جو ملک میں آئین کی پاسداری اور عوام کو طاقت کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔