پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل کون ہیں؟

جمعہ 29 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جسٹس کامران حیات میاں خیل پہلے افسر تھے جو کسی کے پیسوں کی چائے تک نہیں پیتے، بلکہ آفس اسٹاف اور ساتھیوں کو اپنی جیپ سے چائے پلاتے ہیں۔ پشاورہائیکورٹ کے ایڈووکیٹ جنرل آفس میں کامران حیات میاں خیل کے بارے میں یہ رائے مشہور ہے۔ کامران حیات میاں خیل اس وقت پشاور ہائیکورٹ کے جج ہیں جو اسے پہلے 2 بار ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رہ چکے ہیں۔

قانون کی ڈگری اور وکالت

جسٹس کامران حیات میاں خیل خیبر پختونخوا کے ضلع ڈی آئی خان کے بااثر میاں خیل خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ڈی آئی خان سے ہی حاصل کی۔ قانون کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد ڈی آئی خان سے ہی پروفیشنل زندگی کا آغاز کیا، اور آبائی علاقے سے وکالت شروع کی۔ ڈی آئی خان کے بعد کامران حیات لاہور منتقل ہوئے اور وہاں جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ بھی رہے اور ان کے چیمبر سے وکالت کی۔ بعدازں دوبارہ ڈی آئی خان منتقل ہوگئے اور باقاعدہ وکالت کا آغاز کیا۔

نواز شریف دور میں ڈپٹی اٹارنی جنرل رہے

کامران حیات میاں خیل کا وکلاء برادری میں ایک مقام ہے، وکلاء کے مطابق انہوں نے محنت اور قابلیت سے نام بنایا ہے۔ کامران حیات پشاور ہائیکورٹ میں جج تعیناتی سے پہلے مخلتف سرکاری عہدوں پر بھی تعینات رہے ہیں۔ وہ 2013 میں نواز شریف دور حکومت میں ڈپٹی اٹارنی جنرل تعینات ہوئے تھے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل

کامران حیات میاں خیل 2 بار ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رہے ہیں، پہلی بار پرویز خٹک جب تحریک انصاف دور میں وزیر اعلیٰ تھے انہیں ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل تعینات کیا گیا۔ سال 2018 میں دوسری بار صوبے میں تحریک انصاف حکومت میں آئی تو انہیں دوبارہ ایڈووکیٹ جنرل تعینات کیا گیا وہ تقربیاً 2 سال تک اس عہدے پر رہے۔

چائے بھی اپنے پیسوں کی پیتے تھے

کامران حیات کو پشاور کے ایڈووکیٹ جنرل آفس کا اسٹاف آج بھی یاد کرتا ہے، اسٹاف کے ایک ممبرنے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ کامران حیات انتہائی ایماندار محنتی افسر تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ کسی سے چائے بھی نہیں پیتے تھے۔ ان کے دوست یا مہمان آتے تھے تو چائے اپنے پیسوں کی ہی پلاتے تھے۔ وہ اکثر آفس اسٹاف کو بھی چائے اور کھانے کے لیے پیسے بھی جیپ سے دیتے تھے۔

کامران حیات کی ایمانداری کی وجہ سے اے جی آفس کے اکثر اسٹاف اب بھی انہیں یاد کرتے ہیں۔

پشاور ہائیکورٹ میں تعیناتی

کامران حیات میاں خیل کو سال 2022 میں پشاور ہائیکورٹ میں ایڈہاک جج تعینات کیا گیا، اور ابتدائی طور پر انہیں پشاور ہائیکورٹ ایبٹ آباد بینج میں تعینات کیا گیا۔ جسٹس کامران حیات ایک سال بعد ہی 2023 میں پشاور ہائیکورٹ کے مستقل جج بن گئے اور ابھی تک وہ ایبٹ آباد بینچ میں تعینات ہیں۔ موسم سرما کی چھٹیوں میں ججز کی کمی کے باعث انہیں پرنسپل سیٹ پر لایا گیا ہے، یہاں وہ مختلف کیسز دیکھ رہے ہیں۔

خاندانی پس منظر

کامران حیات میاں خیل کا تعلق ڈی آئی خان کے بااثر تعلیم یافتہ خاندان سے ہے، ان کے بڑے بھائی شاہد حیات پولیس سروس میں  ڈی آئی جی رینک کے افسر تھے۔ ان کے ماموں مظہرعالم میاں خیل سپریم کورٹ میں تعیناتی سے پہلے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے۔

جسٹس کامران حیات میاں خیل کے دادا سردار عطا للّٰہ خان میاں خیل با اثر سیاست دان تھے۔ پاکستان بننے کے بعد قانون ساز اسمبلی کے ممبر بنے تھے۔ سردار عطا اللہ خان میاں خیل قائد اعظم کے قریب تھے۔

جسٹس کامران اچانک زیر بحث کیوں؟

جسٹس کامران گزشتہ سالوں سے پشاور ہائی کورٹ میں تعینات ہیں لیکن ان کے حالیہ ایک فیصلے کے بعد وہ زیر بحث آچکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان کو واپس لینے کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنچ کیا جس کی سماعت کامران حیات میاں خیل نے کی اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کرکے انتخابی نشان کو بحال کر دیا۔

فیصلے کے بعد تحریک انصاف جشن منا رہی ہے تو وہیں ان کی اپوزیشن جماعت کے قائدین جسٹس کامران حیات پر ان کے فیصلے کی وجہ سے تنقید کرنے لگے ہیں۔ شہباز شریف نے فیصلے کو سیاسی فاہدہ قرار دیا اور الزام لگایا کہ جسٹس کامران کے بھائی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ کے سابق جسٹس یونس تھہیم نے تنقید کو سیاسی قرار دیا۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ جسٹس کامران حیات کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔ کوئی بھی شخص یا جماعت الیکشن کے حوالے سے کہیں بھی پیٹیشن کر سکتی ہے۔

کیا جسٹس کامران حیات کے بھائی الیکشن لڑ رہے ہیں؟

شہباز شریف نے الزام لگایا تھا کہ کامران حیات کے بھائی تحریک انصاف کے امیدوار ہیں جبکہ کامران حیات کے 2 بھائی ہیں جو سیاست میں نہیں ہیں۔ خاندانی ذرائع کے مطابق کامران حیات کے بڑے بھائی ڈاکٹر ہیں جبکہ دوسرے اے آئی جی سندھ پولیس تھے جو وفات پاچکے ہیں۔

خاندانی ذرائع کے مطابق شعیب میاں خیل کامران حیات کے کزن ہیں جو سیاست کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شعیب میاں خیل نے صوبائی اسمبلی کے لیے کاغذات جمع کرائے ہیں تاہم انہیں ابھی تک کسی جماعت نے ٹکٹ نہیں دیا ہے لیکن انہیں تحریک انصاف کا مظبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے۔

سابق جج یونس تھہیم کے مطابق پاکستان کے ہر شہری کو آئینی حق حاصل ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لے اور کسی جج کے رشتہ دار کا سیاست میں حصہ لینا کوئی گناہ نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp