ایسے وقت میں کہ جب غذائی تحفظ تیزی سے ایک چیلنج بنتا جارہا ہے سوئیڈن کی سوئیڈن کی لنکوپنگ یونیورسٹی کی تجربہ گاہ سے زرعی ٹیکنالوجی میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں کی جانیوالی ایک حالیہ تحقیق بغیر مٹی کے کاشتکاری جس میں برقی طور پر کاشت کے لیے ایک الیکٹرونک تہہ کو مربوط کیا جاتا ہے، جسے سائنسدانوں نے بجا طور پر الیکٹرونک مٹی یعنی ای۔سوائل کا نام دیا ہے۔
مٹی کے بغیر کاشت کاری کا یہ جدید طریقہ، جسے ہائیڈروپونکس کہا جاتا ہے، ایک جدید ترین جڑ کے نظام کو استعمال کرتا ہے جو ایک نئی کاشت کے ذیلی ذخیرے کے ذریعے فعال ہوتا ہے، لنکوپنگ یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ایلینی اسٹیورینیڈو بڑھتے ہوئے عالمی چیلنجوں کے درمیان اس پیشرفت کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔
ایلینی اسٹیورینیڈو کا دعویٰ ہے کہ ہائیڈروپونکس کے ساتھ، احتیاط سے کنٹرول شدہ حالات میں، شہری علاقوں میں خوراک کاشت کرنے کا امکان ایک ٹھوس حقیقت بن جاتا ہے۔ ’دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں بہت زیادہ رونما ہو رہی ہیں، یہ واضح ہے کہ موجودہ روایتی زرعی طریقے ہماری عالمی غذائی ضروریات کی تشفی نہیں کرسکتے۔‘
ایلینی اسٹیورینیڈو کی ٹیم کی تخلیق، ایک برقی طور پر چلنے والی کاشت کرنے والا سبسٹریٹ جسے ای۔سوائل کا نام دیا گیا ہے، واضح طور پر ہائیڈروپونک کاشت کے لیے تیار کیا گیا ہے، نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے معزز جریدے پروسیڈنگز میں شائع ہونے والی ان کی اہم تحقیق کے مطابق جو یعنی بارلے کے بیجوں کی نشوونما میں پندرہ روز میں 50 فیصد تک قابل ذکر تیزی ریکارڈ کی گئی ہے، جب ان کی جڑیں برقی طور پر متحرک تھیں۔
ہائیڈروپونک کاشت میں، پودے بغیر مٹی کے پھلتے پھولتے ہیں، مکمل طور پر پانی، غذائی اجزاء، اور جڑوں کو جوڑنے کے لیے معاون سبسٹریٹ پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ منسلک نظام پانی کی ری سائیکلنگ کی سہولت فراہم کرتا ہے، جس سے ہر ایک پودے تک غذائی اجزاء کی درست ترسیل کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ ’نتیجتاً، پانی کا کم سے کم استعمال اور زیادہ سے زیادہ غذائی اجزاء کی برقراری ہائیڈروپونکس کو روایتی طریقوں سے ممتاز کرتی ہے۔‘
مزید برآں، ہائیڈروپونکس کی عمودی کاشت کی صلاحیت، بڑے ڈھانچے کا استعمال کرتے ہوئے، کسی بھی جگہ کی افادیت کو دو چند کردیتی ہے، جبکہ جڑی بوٹیاں، اور منتخب سبزیاں جیسی فصلیں پہلے ہی اس طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ کاشت کی جا رہی ہیں، لیکن سوائے چارے کے اناج عام طور پر ہائیڈروپونک زراعت کا حصہ نہیں رہے ہیں، ۔
تاہم، حالیہ پیش رفت اس معمول کو چیلنج کرتی ہے، جو برقی محرک سے منسوب نمایاں طور پر بہتر شرح نمو کے ساتھ ہائیڈروپونک طریقے سے جو یعنی بارلے کے پودوں کی کاشت کی قابل عملیت کو ظاہر کرتا ہے۔
سائنسدان ایلینی اسٹیورینیڈو کے مطابق یہ نقطہ نظر وسائل کو محفوظ رکھتے ہوئے بیج کی نشوونما کو تیز کرتا ہے، اس کے باوجود، اس میں شامل قطعی حیاتیاتی میکانزم غیر واضح ہیں۔ ‘ہم کیا جانتے ہیں کہ بیج برقی محرک کے تحت زیادہ مؤثر طریقے سے نائٹروجن پر عمل کرتے ہیں، حالانکہ صحیح اثر واضح نہیں ہے۔‘
روایتی طور پر معدنی اون ہائیڈروپونکس میں کاشت کے سبسٹریٹ کے طور پر کام کرتی ہے۔ تاہم، یہ تحلیل نہ ہونیوالا مواد توانائی سے بھرپور پیداواری عمل میں شامل ہے، جو محققین کو پائیدار متبادل تلاش کرنے پر اکساتا ہے۔
ای۔سوائل
سیلولوز سے تیار کردہ ایک اہم الیکٹرونک کاشت کاری سبسٹریٹ، سب سے زیادہ وافر بایو پولیمر، ایک کنڈکٹو پولیمر کے ساتھ مل کر جسے ’پی ڈوٹ‘ کہا جاتا ہے، اگرچہ یہ مرکب بالکل نیا نہیں ہے، لیکن پودوں کی کاشت میں اس کا بے مثال استعمال اور پودوں کے انٹرفیس کی تخلیق ایک اہم پیشرفت کی نشاندہی کرتی ہے۔
پہلے کی تحقیق سے ہٹ کر جس میں جڑوں کے محرک کے لیے ہائی وولٹیج کا استعمال کیا گیا تھا، لنکوپنگ یونیورسٹی کے محققین کی ’مٹی‘ توانائی کی کھپت کو نمایاں طور پر کم کرتے ہوئے ہائی وولٹیج کے خطرات کو ختم کردیتی ہے۔
لنکوپنگ یونیورسٹی سے وابستہ سائنسدان ایلینی اسٹیورینیڈو ہائیڈروپونک کاشت کو مزید بڑھانے کے لیے تازہ تحقیقی راستوں سے بھرے افق کی متلاشی ہیں۔ ’اگرچہ ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہائیڈروپونکس خوراک کی حفاظت کے عالمی چیلنجوں کو اکیلے ہی حل کرے گا، لیکن یہ بلا شبہ بے پناہ صلاحیت فراہم کرتا ہے، خاص طور پر محدود قابل کاشت اراضی اور سخت ماحولیاتی حالات والے خطوں میں۔‘