پاکستان میں اس وقت عام انتخابات کا دور دورہ ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم سے زیادہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی چھیننے، مسترد ہونے اور لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا شور ہے۔
اب تک پی ٹی آئی کے متعدد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جاچکے ہیں، اس سے پہلے امیدواروں کے تائید کنندگان اور تصدیق کنندگان کی گرفتاریاں بھی ہوچکی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں انتخابات متنازع ہوچکے ہیں لیکن کیا یہ پاکستان کی تاریخ کے متنازع ترین انتخابات ہونے جارہے ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے وی نیوز نے چند ماہرین اور مبصرین سے گفتگو کی ہے۔
سینئیر صحافی ماجد نظامی کہتے ہیں کہ پاکستان کے متنازع انتخابات کی بات کریں تو تاریخی اعتبار سے 1977 کی مثال موجود ہے، 2002 اور 2018 کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی پر بھی بہت زیادہ بات ہوتی ہے، لیکن 2024 میں جو صورتحال ہے وہ ماضی سے مختلف ہے کیونکہ ان انتخابات میں پری پول رگنگ کا تناسب ماضی کی نسبت کافی زیادہ ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ماجد نظامی نے کہا کہ پہلے الیکشن میں پولنگ ڈے میں دھاندلی اور نتائج تبدیل کرنے کی مثالیں موجود ہیں، انتخابات سے قبل جماعتوں کو توڑنا، نئی جماعت بنانا اس طرح کے حربے ماضی میں بھی استعمال کیے جاتے تھے لیکن اس مرتبہ انتخابات سے قبل ان ہتھکنڈوں میں ماضی کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔
’پی ٹی آئی سے استحکام پارٹی بنائی گئی، ریاست کے پاس 9 مئی کا واقعہ موجود ہے جس میں تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔‘
مزید پڑھیں
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے زیادہ متنازع انتخابات ہوچکے ہیں اور اس ضمن میں کئی دلیلیں بھی موجود ہیں، آئی ایس آئی کے جنرل اسد درانی نے آئی جی آئی میں پیسے بانٹے، جنرل حمید گل نے ریکارڈ پر کہا تھا کہ آئی جی آئی 1988 میں آئی جی کی بنیاد انہوں نے رکھی۔
’۔۔۔تو اس طرح کی چیزیں پاکستان میں ہوچکی ہیں اور جو کچھ ابھی ہورہا ہے وہ بھی بہت برا ہورہا ہے لیکن ایسا نہیں کہ اس کی مثال موجود نہیں البتہ انداز تبدیل ہوگیا ہے۔۔۔1977 میں بھی امیدواروں کو اغوا کیا گیا اور اس کے بعد جو نتائج آئے پہلے دن سے ہی کسی نے تسلیم نہیں کیے۔‘
احمد بلال محبوب کے مطابق 2002 کے انتخابات بھی ایسے ہی تھے، شاید ہی ایسی دھاندلی کسی اور انتخابات میں ہوئی ہو، ان انتخابات میں امیدواروں کی سخت اسکریننگ اسٹیبلیشمنٹ نے خود کی۔ 1977 کے انتخابات میں بھی ایسا ہوا لیکن اس کا مطلب نہیں کہ ایسا ہوتے رہنا چاہیے۔
احمد بلال محبوب سے اختلاف کرتے ہوئے الیکشن مبصر ’پٹن‘ کے سربراہ سرور باری کا کہنا ہے کہ ایسے ہتھکنڈے 1977 میں استعمال کیے گئے تھے لیکن 1977 میں جو بھٹو نے انتخابات کروائے تھے اس میں درجن بھر حلقوں میں امیدوار اغوا کیے گئے تھے۔
’اب تو ہر حلقے میں ایسا ہورہا ہے، 1977 میں بھی اس لیول پر کبھی نہیں ہوا، کبھی کاغذات نامزدگی چھیننا، تصدیق تائیدکنندگان کا اغوا کرنا یہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔۔۔1977 میں جب انتخابات کے نتائج لوگوں نے تسلیم نہیں کیے تو پھر تحریک شروع ہوئی جس کا نتیجہ مارشل لا کی صورت میں سامنے آیا۔‘
سینئر صحافی ماجد نظامی آئندہ انتخابات سے قبل صورتحال کا 1977 سے موازنہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ امیدواروں کو اغوا کرنے کے واقعات 1977 میں ضرور رونما ہوئے لیکن وہ محدود پیمانے پر تھے، سندھ سے 15 ایم این اور بلوچستان سے 4 ایم این اے منتخب کروائے گئے۔
’۔۔۔لیکن اب حالات مختلف ہیں، انتہائی باریک بینی سے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جارہے ہیں اور تکنیکی بنیادوں پر دھاندلی کی جارہی ہے، یہ بیشتر گزشتہ انتخابات سے مختلف ہے اور ایک نئی روایت قائم ہورہی ہے۔‘