امریکا کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی اور ایک خاتون صحافی کے درمیان ہونے والا مکالمہ اس وقت سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہورہا ہے۔ اس مکالمے کے دوران جان کربی خاتون صحافی کے پے در پے سوالات پر جھنجلا کر رہ گئے اور ہزیمت سے بچنے کے لیے انہوں نے آخر میں جواب دینے سے ہی انکار کردیا۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کو کن سوالات نے مشکل میں مبتلا کردیا؟ اس دوران ان کی کیفیت کیا تھی؟ اور آخر میں سوالات کے جوابات دینے سےکیوں انکاری ہوگئے؟ یہ ایک دلچسپ معاملہ ہے۔
بدھ کو وائٹ ہاؤس میں ایک پریس بریفنگ کے دوران جان کربی سے معروف عرب ٹیلی ویژن چینل ’الجزیرہ‘ کی رپورٹر کمبرلے ہیلکیٹ نے سوال کیا کہ ایران پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ کوئی بھی اس خطے میں قدم نہیں رکھ سکتا جہاں اس کا غلبہ ہو، امریکا کو اس بات کا پہلے سے پتہ ہے تو کیا بحیرہ احمر میں امریکا کی جانب سے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں پر حملہ اشتعال انگیزی نہیں؟
Al Jazeera’s @KimberlyHalkett challenges White House National Security Council Spokesperson John Kirby about US responsibility over the escalation of tensions in the Red Sea. pic.twitter.com/gFTMksfNHV
— Al Jazeera English (@AJEnglish) January 4, 2024
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون صحافی کے سوال کے جواب میں جان کربی نے جواب دیا، ’واہ! یقیناً معاملات کو ایسے ہی الٹ کر پیش کیا جاتا ہے، ایسا ہی ہے نا، کیا آپ کی نظر میں کمرشل جہازوں پر ڈرون اور بیلسٹک میزائلوں سے حملے کرنا اشتعال انگیزی نہیں؟‘
جان کربی ابھی بات کر ہی رہے تھے کہ صحافی کمبرلے ہیلکیٹ نے ایک اور سوال کرنے کی کوشش کی جس پر جان کربی نے انہیں کہا، ’رکیں تو سہی، مجھے اپنی بات مکمل کرنے دیں۔‘ وہ پھر بولے، ’غیر مسلح تجارتی بحری جہازوں اور سیلرز پر حملے کیا اشتعال انگیزی نہیں؟‘ ان جملوں کے دوران صحافی کمبرلے یہ کہتے سنائی دیتی ہیں، ’میں آپ سے سوال کر رہی ہوں۔۔۔۔‘
Related Posts
جان کربی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ہم اور (آپریشن) پروسپیریٹی گارڈین جو کر رہے ہیں وہ ایک دفاعی معاملہ ہے، آپ ویب سائٹ پر ملاحظہ کرسکتی ہیں، یہ میری ٹائم ممالک کے اتحاد کی رضامندی سے ہوا ہے، اس اتحاد کا مقصد بین الاقوامی شپنگ اور عالمی معیشت سے جڑی شپنگ کو مل کر تحفظ فراہم کرنا ہے۔‘
صحافی کمبرلے نے ترجمان کی بات سے بات نکالتے ہوئے سوال داغا، ’لیکن یہ کارروائی اشتعال انگیزی کا سبب بنی کیونکہ اس کے بدلے میں جو ہوا۔۔۔۔
جان کربی غالباً بات کو بھانپ چکے تھے اسی لیے انہوں نے صحافی کا سوال مکمل نہ ہونے دیا اور درمیان میں بول پڑے، ’نہیں میڈم، نہیں میڈم۔‘
صحافی کمبرلے بولیں، ’اس کا مطلب ہے کہ بحیرہ احمر میں گشت کے آغاز سے جس اشتعال انگیزی میں اضافہ ہوا آپ اس سے انکار کررہے ہیں، جس پر جان کربی نے کہا، ’میں آپ کے سوال سے مکمل طور پر اختلاف کرتا ہوں، بحیرہ احمر میں کمرشل جہازوں پر حملہ امریکا نے نہیں بلکہ حوثیوں نے کیا تھا اور ان حوثیوں کو کس کی حمایت حاصل ہے۔۔۔ایرن کی‘؟
انہوں نے بات جاری کرتے ہوئے کہا، ’ایران نے حوثیوں کو میزائل فراہم کیے جو وہ استعمال کر رہے ہیں، ہم کمرشل جہازوں کے تحفظ کے لیے صرف دفاعی پوزیشن پر ہیں اور ہم نے گزشتہ 48 گھنٹے میں۔۔۔۔۔۔‘
صحافی نے پھر سوال کیا، ’اشتعال انگیزی اسی وقت سے ہے، اب ایران نے بھی اپنا جنگی بحری جہاز لانچ کردیا ہے لہٰذا اب اشتعال انگیزی ہوگی۔
جان کربی نے صحافی کو ٹوکتے ہوئے کہا، ’میں آپ کو یہاں ایک بار پھر روکتا ہوں، حقیقت یہ ہے کہ ۔۔۔۔
صحافی کمبرلے نے کہا، ’میں آپ سے پھر پوچھتی ہوں، کیا امریکی اقدامات اشتعال انگیزی کی حمایت کرتے ہیں؟‘
جان کربی نے ’نہیں‘ میں جواب دیا، جس کے بعد صحافی نے انہیں میڈیا کو جاری انہی کے ایک بیان سے متعلق کچھ یاد دلانے کی کوشش کی تو جان کربی نے کہا، ’میڈم! آپ نے مجھ سے ایک سوال کیا، میں نے اس کا جواب دیا ’نہیں‘۔
جان کربی کے اس واضح اشارے پر وائٹ ہاؤس اسٹاف نے مائیک دوسرے صحافی کے حوالے کردیا۔