جنرل عاصم منیر سے چند سوالات

جمعرات 9 مارچ 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہمارے ہاں روایت ہے کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی بولنے والوں کی زبان سے قفل ہٹتے ہیں اور لکھنے والوں کے قلم کو تحریر کا اذن ملتا ہے۔ میں لیکن آپ کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے، آپ سے کچھ سوال کرنے کی جرأت کر رہا ہوں۔

ماضی میں جن لکھاریوں نے ایسی جرأت کی اس کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں نکلا۔ کچھ کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوا یا کچھ شمالی علاقہ جات کی سیر پر بھیج دیے گئے۔ یہ تحریر اس خوف اور خدشے کے اثر سے ماورا ہے۔ اس لیے کہ سچ وقت پر نہ بولا جائے تو اس کی اوقات جھوٹ جتنی رہ جاتی ہے۔

اس تحریر کا مقصد نہ آپ کے ادارے پر تنقید ہے نہ سرحد پر کھڑے جوانوں کی حوصلہ شکنی ہے، نہ مدعا کسی حلف کا ہے نہ شکایت کسی ناخلف کی ہے۔ یہ تحریر ایک سوال ہے بلکہ سوالات کا مجموعہ ہے۔ یہ سوال میرا حق ہے۔ جواب آپ کا اختیار ہے۔ میں جواب پر اصرار نہیں کروں گا پر اپنے سوال پر آخری سانس تک مُصر ضرور رہوں گا۔ یہ میرا اختیار ہے۔

ان میں سے بہت سے سوالات پارلیمان سے کرنے چاہئیں مگر کیا کہیے کہ اس ملک کا ماضی گواہ ہے کہ یہاں فوج ہی پارلیمان رہی اور اسی ادارے کو آئین بھی مانا جاتا رہا۔ یوں عملاً صورتحال ’خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گِلِ کوزہ‘ کی سی ہے۔

آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ اس ملک میں کتنے برس جمہوریت رہی اور کتنے برس آمریت کے سیاہ بادل چھائے رہے؟ کتنے سال خوف میں بیتے اور کتنی دہائیاں جبر میں گزریں؟ اس ملک میں جمہوریت کو کبھی پنپنے نہیں دیا گیا۔ جمہوری اداروں کی عزت کبھی باقی نہیں رہنے دی گئی۔ پارلیمان کو ہمیشہ بے توقیر کیا گیا۔ عوامی نمائندوں کی تضحیک کی گئی۔ ہر آمر نے اس ملک میں اپنے مفاد کی جنگ لڑی اور نام ’ناموسِ وطن‘ کا لیا۔ اس مہم جوئی نے ارضِ پاک کو ایسا نقصان پہنچایا جس کی نہ تلافی ہوسکتی ہے نہ ازالہ۔

آپ جانتے ہی ہیں کہ اپنے ہاں ہر جمہوری دور آمریت کے زیرِ اثر رہا۔ اس اثر سے جب نکلنے کی ذرا کوشش کی، اسی وقت دوبارہ آمریت مسلط کردی گئی۔ سیاسی قائدین آمروں سے جنگ لڑتے لڑتے زندگی کی جنگ ہار گئے۔ ملک بدر کردیے گئے۔ غداری کے طعنے دیے گئے اور کفر کے فتوے لگے۔ لیکن وقت نے بتایا کہ بقا جمہوریت میں ہے آمریت میں نہیں۔ دائم عوام کی حکومت ہے۔

یہاں آمریت نئے نئے روپ دھارتی رہی۔ عوام کے جمہوری اور انسانی حقوق سلب ہوتے رہے۔

نیا ٹنٹنا یہ ہے کہ آمریت سے جب دل بھرا تو پھر ایک ہائبرڈ نظام تخلیق کیا گیا۔ ایسا نظام جس میں حاکمیت نامعلوم افراد کی ہو اور چہرہ عمران خان کا ہو۔ ایک ایسی کٹھ پتلی تیار کی گئی جو اشاروں پر ناچے، جس کا بس نام وزیرِاعظم رکھا جائے کام کہیں اور دکھایا جائے۔ ہائبرڈ نظام کا تجربہ بھی ماضی کے مارشل لاز کی طرح ناکام رہا۔ لیکن اس بار جو نقصان ملک کو ہوا وہ ناقابلِ تلافی ہے۔ ملک کی عزت، حرمت اور وقار ایک تجربے کی بھینٹ چڑھ گیا

اس تحریر میں آپ کو مخاطب کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آپ نے اس ملک سے وفاداری کا حلف اٹھایا جو اتفاق سے اس سے پہلے ہر آرمی چیف نے اٹھایا۔ ہر آرمی چیف کے پاس وہ موقع نہیں تھا جو آپ کے پاس ہے۔ آپ اگر چاہیں تو ماضی کی غلطیوں کو درست کرسکتے ہیں۔ اسی ضمن میں چند سوالات ہیں۔ چند گذارشات ہیں۔

آپ نے اور آپ کے ادارے نے اچانک قوم سے نیوٹرل رہنے کا وعدہ کیا، لیکن سوال صرف اتنا ہے کہ کیا نیوٹرل صرف ایک نعرہ ہے یا پھر آپ واقعی عوام کی حاکمیت پر یقین رکھتے ہیں؟

کیا آپ کے عہد میں یہ حتمی فیصلہ ہوجائے گا کہ اب اس ملک میں نہ کبھی مارشل لا لگے گا نہ ہی کوئی ہائبرڈ نظام تخلیق ہوگا؟

کیا آپ کے عہد میں پاکستان کے عوام ان لوگوں کوسزا پاتے دیکھیں گے جنہوں نے ہائبرڈ نظام کے نام پر اس ملک کے ساتھ دھوکا کیا؟

کیا آپ کے ادارے کے ان لوگوں کو پابندِ سلاسل کیا جائے گا جنہوں نے جمہوریت کی توہین کی؟

کیا ان لوگوں کو سزا دی جائی گی جو مسند انصاف پر بیٹھ کرجرنیلوں کے فون پر انصاف کو پامال کرتے رہے؟

کیا ان لوگوں کو سزا دی جائے گی جو ججوں کے گھروں میں پہنچ کر ان کو بے انصافی پر مجبور کرتے رہے؟

کیا وہ لوگ عوام کے سامنے لائے جائیں گے جو اس ہائبرڈ نظام کے نام پر اس سماج میں نفرت پھیلاتے رہے اور احتساب کے نام پر سیاستدانوں کو عقوبت خانوں میں دھکیلتے رہے؟

کیا ان افسران کو سزا نہیں ہونی چاہیے جو عمران خان کے ساتھ مل کر اپنے اس ادارے کی توہین کرتے رہے جس ادارے کا رزق انہوں نے اپنے بچوں کو کھلایا؟

کیا ان کرداروں کو عبرت کا نشان نہیں بننا چاہیے جنہوں نے تحریک عدم اعتماد کی رات اس ملک کے مقدس آئین کو پیروں تلے روندا؟

کیا فوج کے تعاون سے آنے والے عمران خان کو فوج کے خلاف ہرزہ سرائی پر کسی تادیب کا سامنا کرنا پڑے گا؟

کیا عدلیہ میں براجمان آئین شکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوگا یا پھر انہیں اثاثے سمجھ کر معاف کردیا جائے گا؟

کیا ان لوگوں کو شٹ اَپ کال دی جائے گی جو اب بھی آپ کے کان میں مارشل لا کی سرگوشیاں کر رہے ہیں؟

کیا اس ملک میں پارلیمان کی عزت ایجنسیوں کی مدد سے تار تار کرنے کی روایت ختم کی جائے گی؟

اس ملک کے عوام کے ذہنوں میں عمران خان نے فوج کے خلاف جو نفرت ڈال دی ہے اس نفرت کو پھیلانے والوں کو پکڑا جائے گا؟ یا انہیں مستقبل کی حکومتوں کے لیے خطرہ بناکر چھوڑ دیا جائے گا؟

کیا آپ ایکسٹینشن جیسی قبیح روایت کا خاتمہ کریں گے؟

یہ میرے کچھ سوال ہیں مجھے جواب درکار نہیں، میرا مدعا تو فقط اس شعر کا مصداق ہے:

اثر کرے نہ کرے سن تو لے میری فریاد

نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد

تاہم یاد رہے کہ یہ سوال اب ارضِ پاک کے بچے بچے کی زبان پر ہے۔ آپ کو اس تحریر کے ذریعے یہ بتانا مقصود تھا کہ اگر اس ملک کے عوام کو ان سوالات کا زیادہ دیر تک جواب نہ ملا تو خاموشی کا جو لاوا لوگوں کے ذہنوں میں پک رہا ہے وہ کسی روز آتش فشاں کی صورت پھٹ بھی سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp