کپتان نے جیل میں دھوم مچا رکھی ہے۔ جب عدالت لگتی ہے تو یہ کوئی سین بنا کر ہیڈ لائن لگوا دیتا ہے۔ اک خبر آئی کہ کپتان نے اپنے ملنگوں کو اتوار کے دن نکلنے کا کہا ہے۔ یقین نہیں آیا تھا کہ شاہ محمود قریشی کے حوالے سے بیان آ گیا کہ اتوار 28 جنوری کو پی ٹی آئی کے تمام امیدوار باہر نکلیں۔ انتخابی مہم شروع کریں۔ جو الیکشن فالو کرتے ہیں ان کے لیے یہ بیان خوشی کا باعث تھا۔ لیکن اس بیان کے ساتھ ایک دم بھی لگی ہوئی تھی۔ جو امیدوار باہر نہ نکلا اس کا ٹکٹ واپس لے کر دوسرے کو دے دیا جائے گا۔
یہ وہ پارٹی ہے جو اپنے الیکشن نشان کے لیے 4 دن پہلے کچہری چڑھی ہوئی تھی۔ ہمارا بلا ہمیں واپس کرو، الیکشن کمیشن ہائے ہائے۔ حالت یہ ہے کہ ابھی تک پارٹی کے اہم ترین دونوں لیڈر ٹکٹ تبدیل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ٹکٹ بھی اتوار کی کارکردگی دیکھ کر بدلنا ہے جوانوں نے۔ خبر پہنچنے اور تبدیل ہونے کا وقت شمار کریں۔ ٹکٹ انشاء الله تب تبدیل ہو رہے ہونگے جب الیکشن مہم ختم ہونے میں 6 دن باقی ہونگے۔
لیڈر خود جیل پہنچے ہوئے ہیں۔ بندہ کوئی جیل کے باہر دکھائی نہیں دیتا۔ ایک ایک حلقے سے چار چار امیدوار میدان میں ہیں۔ ٹکٹ تبدیل ہو رہے ہیں۔ مزید ٹکٹ بدلنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اپنے مضبوط حلقوں میں امیدوار وکیلوں کو بنا رکھا ہے۔ یہ وہ شہزادے ہوتے ہیں جو اپنی چائے بھی اس مسکین سے منگواتے ہیں جس کا کیس لڑ رہے ہوں۔ چالاکیاں ہوشیاریاں چکر بازیاں اپنے گاہکوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کی قانونی اور ذہنی حالت سپریم کورٹ کے مقدمات میں کی گئی لائیو نشریات میں سب نے دیکھ لی ہے۔
ایک بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پی ٹی آئی اور کپتان بہت مقبول ہیں۔ سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ مقبولیت کے اس پلس پوائنٹ کے بعد ان کا اگلا ایسا پوائنٹ سوچنا پڑتا جسے ان کی برتری قرار دیا جا سکے۔ سوشل میڈیا پر یہ ایکٹیو ہیں۔ سوشل میڈیا پر فیک نیوز چلانے پر حکومت نے ایکشن لینے کا اعلان کیا ہے۔ جو پاکستان سے من گھڑت خبریں دیتے تھے اب وہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کرتے پھر رہے ہیں۔ لے دے کر بارلے پاکستانی بچتے ہیں۔ ان سے باتیں جتنی مرضی کروا لیں، چندہ انہوں نے کوئی نہیں دیا پی ٹی آئی کو الیکشن کے لیے۔ فنڈ ریزنگ ڈھیلی ماٹھی ہی رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کے برعکس مسلم لیگ نون نے صرف ہوم ورک کیا ہے۔ ٹکٹ دینے کی صرف ایک شرط تھی کہ کیا وہ بندہ سیٹ نکال سکتا ہے؟۔ سیٹ نکالتا دکھائی نہ دینے پر ہی مسلم لیگ نون نے اپنے بڑے ناموں کو ٹکٹ نہیں دیا۔ بہت محنت سے پینل بنائے گئے ہیں۔ جہاں قومی اسمبلی کا امیدوار کمزور ہے اس کے پینل میں صوبائی امیدوار دیکھیں بس۔ مسلم لیگ نون نے اپنی الیکشن مہم سب سے لیٹ شروع کی ہے۔ ان کو رسپانس ٹھیک مل رہا ہے۔ اب بھی مہم چلانے سے زیادہ الیکشن ڈے پرفارمنس اور اس سے بھی پہلے ان امیدواروں کو بٹھانے پر کام ہو گا۔ جو پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر کے لیے مسئلہ ہوں گے۔
مزید پڑھیں
پی ٹی ائی کو باہر رکھنے کی حکمت عملی بہت سادہ تھی۔ اس کے ووٹر کو کنفیوز کیا جائے۔ 1990 ماڈل ون ٹو ون مقابلے کرائے جائیں، 97 ماڈل مایوسی پھیلائی جائے جب پی پی کا جیالا ووٹ دینے ہی نہیں آیا اور پی پی 18 سیٹ تک محدود ہو گئی۔ 2002 ماڈل اختیار کیا جائے جب مسلم لیگ نون مقبول تھی اور اس کے پاس الیکٹیبل نہیں تھے۔ ون ٹو ون چیک کرنا ہے تو دیکھ لیں کے پی ایم ایل این پوری پشاور ویلی سے غائب ہے۔ اے این پی جے یو آئی کے لیے میدان چھوڑ رکھا ہے۔ جہاں کوئی پارٹی مشکل میں ہے ادھر اس کو دوسری بڑی پارٹی نے مدد فراہم کر رکھی ہے۔
پی ٹی آئی جب بلے کے نشان کا اپنا کیس سپریم کورٹ سے ہار گئی۔ اس کے بعد پنجاب میں ایسی جگہوں پر جہاں مسلم لیگ نون کمزور تھی۔ مخالف امیدوار کے دھڑے سے لوگ لڑھک کر نون لیگ کی طرف آ گئے کہ انہوں نے نہیں جیتنا۔ پی ٹی آئی کا اگلا الیکشن نہیں ہے۔ یہ پارٹی کو بھی معلوم ہے اور ان سیاسی لوگوں کو بھی جو اس کی طرف سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ووٹر بڑا سیانا ہے اسے اپنے اگلے 5 سال بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ اسے پتا ہے کہ کام کرانے ہیں تو کدھر جانا ہے۔ مخالفت کرنی ہے تو کس حد تک کرنی ہے تاکہ رگڑے نہ لگیں۔
پی ٹی آئی کے ساتھ جو دوسروں نے کیا وہ تو کیا۔ خود کپتان نے اپنی پارٹی کا جو حشر کیا ہے اس کا جواب نہیں۔ اب اپنے امیدواروں کے دل پر گیدڑ بٹھا دیا ہے کہ ٹکٹ تبدیل ہو سکتا۔ ووٹر سپوٹر تو کنفیوز ہے ہی خود امیدواروں کو بھی یرکا رکھا ہے۔ کپتان مسلم لیگ نون کی جتنی مدد کر چکا ہے۔ اس کے بعد یہ سوچنا کہ کسی آزاد کی دال گلے گی۔ انہونی ہی ہو گی۔ پاکستان کے الیکشن میں انہونیاں ہوتی ہیں لیکن اتنی بھی لٹ نہیں پڑی ہوئی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔