عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی رہنما اور پی کے 83 سے امیدوار ثمر ہارون بلور نے کہا ہے کہ وہ دہشتگردوں کے ڈر اور سیکیورٹی خدشات کے باعث عوامی رابطہ مہم اور اپنے عوام کی خدمت سے دستبردار نہیں ہوسکتیں۔
’ثمر ہارون بلور 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے مہم میں مصروف ہیں، ان کے مطابق عوامی خدمت انہیں وراثت میں ملی ہے اور اس جدوجہد میں ان کے سُسر اور شوہر نے جان کی قربانی تک دے دی‘۔
گھریلو خاتون سے سیاست تک کا سفر
اگرچہ ثمر ہارون بلور کا تعلق سیاسی خاندان سے ہے مگر اس کے باوجود تقربیاً 5 سال قبل تک ثمر ہارون بلور گھریلو خاتون تھیں اور سیاست میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ ان کے مطابق 2018 کے عام انتخابات کے لیے ان کے شوہر ہارون بلور پی کے 79 سے عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار تھے اور 10 جولائی کی شام وہ کارنر میٹنگ میں پہنچے ہی تھے کہ زوردار دھماکا ہوگیا جس میں ہارون بلور سمیت 20 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
مزید پڑھیں
انتخابی مہم کے دوران شوہر کو کھونے کے بعد ثمر ہارون بلور خاموش نہیں بیٹھیں بلکہ شوہر کی راہ پر ہی چلنے کا فیصلہ کیا اور چند ماہ بعد ہونے والے ضمنی الیکشن میں شوہر کی جگہ حصہ لیا۔
وہ صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت کے باوجود کامیاب ہوئیں اور عملی سیاست کا آغاز کیا جبکہ اے این پی نے ثمر ہارون بلور کو صوبائی ترجمان بھی مقرر کیا اور تاحال ترجمان کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔
’بیٹے کے کہنے پر سیاست میں آئی‘
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ثمر ہارون بلور نے بتایا کہ انتخابی مہم کے دوران شوہر سے محروم ہونے کے بعد وہ سیاست سے بیزار ہوگئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں مایوس تھی لیکن میرے بیٹے دانیال بلور نے سیاست میں آنے اور والد کی جگہ لینے کا کہا۔ اس کے علاوہ خاندان کے بڑوں، پارٹی اور حلقے کے عوام نے بھی الیکشن میں حصہ لینے کا مشورہ دیا‘۔
عملی سیاست میں آنے کے بعد ثمر ہارون بلور انتہائی متحرک ہوگئیں۔ وہ عوامی مسائل اسمبلی فلور پر اٹھاتیں اور ساتھ ہی روزانہ کی بنیاد پر حلقے کا دورہ بھی کرنے لگیں۔ ’پشاور کے عوام کی ہمیشہ خدمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں شوہر کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے عوامی خدمت میں دن رات مصروف ہوں‘۔
’الیکشن مہم کی حکمت عملی‘
ثمر ہارون بلور انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ جلسے، کارنر میٹنگز کے علاوہ بازاروں اور گھروں میں ڈور ٹو ڈور مہم بھی کررہی ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر بھی سرگرم ہیں۔
انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ ان کا عام دنوں میں بھی روزانہ حلقے میں آنا جانا لگا رہتا ہے جبکہ الیکشن مہم کے دوران وہ اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے میں مصروف ہیں۔
ثمر ہارون بلور نے کہا کہ وہ خاتون کی حیثیت سے نہیں بلکہ سیاسی امیدوار کی حیثیت سے انتخابی مہم چلا رہی ہیں اور حلقے کے ووٹرز کو بتا رہی ہیں کہ وہ ہر فورم پر ان کے لیے آواز اٹھا سکتی ہیں اور حق لے کر دے سکتی ہیں۔ ’میں اپنے حلقے میں جلسے اور کارنر میٹنگز کر رہی ہوں جو ہماری انتخابی مہم کا حصہ ہے‘۔
ثمر بلور نے بتایا کہ وہ خواتین کی کارنر میٹنگز کا انعقاد بھی کر رہی ہیں اور ان کے مسائل انہی کی زبانی سنتی ہیں۔ ’خواتین کے مسائل پر خصوصی توجہ دے رہی ہوں۔ اگر ہماری حکومت آتی ہے تو خواتین کے لیے بہتر کام کریں گے۔ جو ہمارے منشور کا اہم حصہ بھی ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ خاتون امیدوار ہونے کی وجہ سے انہیں کوئی مشکلات درپیش نہیں بلکہ ووٹرز خوش ہوتے ہیں۔ ’میرا زیادہ رابطہ مردوں کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ بہت سپورٹ کرتے ہیں‘۔
’سیکیورٹی خدشات‘
پشاور کا بلور خاندان دہشتگردی سے بہت متاثر ہوا ہے۔ 2012 میں اس وقت کے سینیئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور کو عوامی تقریب کے دوران نشانہ بنایا گیا جس میں وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ ان کی موت کے بعد ان کے بڑے بیٹے ہارون بلور سیکیورٹی خدشات کے باوجود بھی باپ کی جگہ سیاست میں آئے اور 2018 کے عام انتخابات کے لیے انتخابی مہم کے دوران دہشتگردی کا نشانہ بن گئے۔ جس کے بعد اب ان کی اہلیہ ان کی جگہ عملی سیاست میں آئی ہیں۔
’پشاور کا بلور خاندان‘
بلور خاندان پشاور کا بااثر سیاسی خاندان ہے جو کئی دہائیوں سے سیاست سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں بلور خاندان کے غلام احمد بلور اور بشیر بلور منتخب ہوتے آئے۔ پشاور کے حلقہ پی کے 83 جو پی کے 78 ہوا کرتا تھا اسی حلقے سے ثمر ہارون کے سُسر بشیر احمد بلور 1990 سے 2008 تک مسلسل 5 بار کامیاب ہوتے رہے۔ پھر 2012 میں بشیر بلور کو پشاور میں دہشتگردوں نے نشانہ بنایا اور ان کی موت کے بعد ان کے بیٹے اور ثمر بلور کے شوہر ہارون بلور اسی حلقے سے میدان میں آئے لیکن کامیاب نہ ہوئے جبکہ 2018 میں بھی وہ امیدوار تھے لیکن دہشتگردوں کا نشانہ بن گئے۔
’پی کے 83 کا حلقہ‘
خیبرپختونخوا اسمبلی کے حلقے پی کے 83 کی 80 فیصد آبادی شہری علاقوں پر مشتمل ہے۔ حلقے میں کُل ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 85 ہزار سے زیادہ ہے جس میں مرد ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ ساڑھے 57 ہزار جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 24 ہزار 635 ہے۔