مغربی بنگال کی شاعرہ مومیتا عالم نے لکھا تھا کہ؛
مجھے پوچھنے پر مجبور کیا گیا!
میں کیوں ‘خاموشی’ کو سونگھ رہی ہوں
زمین پر اب دو طرح کی خاموشی ہوتی ہے
ایک مرنے والے کی
اور دوسری ظلم کرنے والوں کی!
ایکٹ نمبر 1
پہلا سین
کپواڑہ کہ ایک گاؤں دودوان میں سولہ سالہ ناظمہ کی یاداشت میں اب تک وہ خوف کہیں چھپا بیٹھا ہے جب 19 اگست، 2020 کے دن گاؤں کی مرکزی پکی سڑک پر ایک لڑکے نے بھارتی فوجی گاڑی پر پتھر پھینکے۔ وہ لڑکا پتھر پھنک کر ناظمہ کے گھر کے قریب سے گزرا اور اس کہ کچھ دیر بعد ہی بیس بھارتی فوجی ناظمہ کے گھر میں داخل ہوئے، ساری کھڑکیوں کے شیشے توڑے پھر انہوں نے ناظمہ کے بھائی کو جو ایک ڈرائیور تھا اور اس دن کرفیو کی وجہ سے گھر پر ہی سویا ہوا تھا، کو اٹھا کر گھسیٹا اور پیٹنا شروع کردیا۔ جب ناظمہ کی والدہ نے بھارتی فوجیوں کو مارنے سے روکنے کی کوشش کی تو ان فوجیوں نے ناظمہ اور اس کی والدہ کو زمین پر لٹاکر پیٹنا شروع کردیا۔ بھارتی فوجیوں نے ناظمہ کی بڑی بہن کا کرتا پھاڑا اور اس کو بھی زمین پر دھکیل دیا۔ سب گھر والےرو رہے تھے، گڑگڑارہے تھے پر وہ ان کی سننے کی بجائے انہیں مستقل مارے جارہے تھے۔
دوسرا سین
31جولائی 2023 کو ممبئی کے نزدیک پلگار ریلوے اسٹیشن پر ریلوے پولیس کے ایک کانسٹیبل چیتن کمار نے دور سے فائرنگ کر کے پہلے اپنے سنیئر افسر کوقتل کیا اور پھر ٹرین میں موجود تین مسلمان مسافروں کو بھی قتل کردیا۔ ان سب کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کہ پاس کھڑے ہوکر چیتن کمار نے زور زور سے بولنا شروع کردیا کہ اگر تم بھارت میں رہنا چاہتے ہو تو ووٹ صرف مودی اور یوگی کو دینا۔
تیسرا سین
میں کالج سے واپس آرہا تھا مجھے سی آر پی ایف نے راستے سے اٹھایا، مجھے بری طرح پیٹا گیا، پھر مجھے ننگا کر کے الٹا لٹکادیا گیا۔ اس کہ بعد میری ایڑیوں اور جسم کے نازک حصوں پر بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور پھر مجھے سیدھا لٹاکر میری ٹانگوں پر سے رولر گزارا گیا۔ یہ کسی نازی کیمپ کی روداد نہیں بلکہ اننت ناگ، مقبوضہ کشمیر کے ایک 21 سالہ نوجوان کی ریاستی پولیس سے رہائی کے بعد کی گواہی ہے۔ یہ گرفتاری 2017 میں کی گئی تھی۔
چوتھا سین
شہریت کے متنازع قانون کے خلاف پورے بھارت خصوصا مسلمان اکثریتی علاقوں میں پُرامن مظاہرے ہوئے۔ ایسا ہی ایک مظاہرہ مسلم اکثریتی علاقے مظفر نگر میں بھی کیا گیا۔ یہ وہی مظفر نگر تھا جہاں 2013 میں بھی فسادات ہوئے جن میں 60 سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور پچاس ہزار سے زیادہ لوگ خوف سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ 18 دسمبر، 2019 کو مظفر نگر کے ایک مدرسے میں پولیس داخل ہوئی۔ اس دوران مدرسے کے مہتمم نے پولیس کو بتایا کہ ہمارے مدرسے کا کوئی طالبعلم ان مظاہروں میں شریک نہیں ہوا۔ مگر اس کے باوجود پولیس نے 35 طلباء کو گرفتار کیا جس میں پندرہ طلباء 18 سال سے کم عمر تھے۔ پولیس ان سب طلباء کو گرفتار کر کے قریبی پولیس تھانے میں لائی۔ ان کے پیچھے مدرسے کے مہتمم بھی آگئےاور انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کے مدرسے کے تمام لڑکوں کو ننگا کر کے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پھر ان پر ظلم کی انتہا کرتے ہوئے انہیں ایسے طریقوں سے جبر و فسطائیت کا شکار بنایا گیا کہ وہ طلباء خون میں نہا گئے۔ اس کے بعد پولیس نے ان سب مسلمان طلباء کو مجبور کیا کہ وہ ‘ جے شری رام’ کے نعرے لگائیں۔ کانگریس کے مقامی رہنما سلمان سعید کے مطابق مدرسے کے 55 سالہ مہتمم کو اس قدر مارا پیٹا گیا کہ ان کے جسم پر کپڑے کا ایک بھی ٹکڑا نہیں بچا۔
ایکٹ نمبر 2
پہلا سین
11اپریل، 2020 کی رات بھارتی فوجیوں نے بارہ مولا میں 4 گھروں اور 2 دکانوں کو اس وقت آگ لگادی جب وہ عسکریت پسندوں سے جھڑپ میں پھنس گئے تھے۔ وہ تمام گھر اور دکانیں، بارہ مولا کے مقامی لوگوں کی تھیں۔ اس واقعے کے ایک ماہ بعد ہی بارہ مولا کے ایک اور گاؤں کے مقامی فرد منیب احمد نے بتایا کہ ایک اور واقعہ میں بھارتی فورسز نے جنوبی کشمیر کے گاؤں ترکونگم میں تین گھروں کو آگ لگادی جب کہ وہاں کوئی عسکریت پسند موجود نہیں تھا اور نہ ہی کوئی اسلحہ ملا۔ کشمیر کی ریاستی حکومت کے مطابق 1989 سے 2001 تک 538 عمارتیں جن میں مسلمانوں کی دکانیں، گھر اور جائیدادیں شامل تھیں، انہیں بھارتی فورسز نے جزوی یا مکمل طور پر جلادیا۔
دوسرا سین
ضلع کھرگون، مدھیا پردیش میں 10 اپریل، 2022 کی رات رام نواسی کے جلوس کے دوران پتھراؤ اور آگ لگانے کے واقعات رونما ہوئے۔ 80 سے زیادہ لوگ (جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی) گرفتار ہوئے۔ اس دوران بہت سی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں جس میں معاشی طور پر کمزور مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر ریاستی سرپرستی میں بلڈوزر چلوادیا گیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اس رات پچاس سے زائد مسلمانوں کی جائیداوں کو مسمار کردیا گیا۔ بی جے پی کے ایک سابق ریاستی وزیر نے ان واقعات کو ‘بلڈوزر کے انصاف’ سے تعبیر کیا۔
ایکٹ نمبر 3
پہلا سین
15 مئی 1990کو ایک نوجوان دلہن منیبہ غنی کو انڈیا کی بارڈر سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے گرفتار کر کے ریپ کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ یہ سب اس وقت کیا گیا جب وہ شادی کی تقریب کے بعد اپنے شوہر کے گھر جارہی تھی۔ اسی واقعے میں اس کی خالہ کا بھی ریپ کیا گیا۔ انکوائری رپورٹ میں ثابت ہوا کہ بی ایس ایف کے تین اہلکاروں نے ان دونوں خواتین کا ریپ کیا لیکن کسی بھی جوان کو سزا نہیں دی گئی۔
دوسرا سین
10اکتوبر، 1992 کی رات کو آرمی یونٹ کی ایک گاڑی شوپیاں، پلوامہ کے ایک گاؤں میں داخل ہوئی۔ بھارتی فوجی یونٹ، عسکریت پسندوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کرنے شوپیاں آئی تھی۔ لیکن سرچ آپریشن کے دوران چھ سے نو خواتین کا گینگ ریپ کیا گیا جس میں ایک گیارہ سالہ بچی بھی شامل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ کی ڈاکٹر نے تمام خواتین کے ٹیسٹ کروانے اور جائزہ لینے کہ بعد اس بات کی تصدیق کی کہ سات خواتین کہ ساتھ گینگ ریپ کیا گیا تھا۔
تیسرا سین
گجرات کے گاؤں رندھیک پور کی رہائشی بلقیس بانو ، مارچ 2002 میں فسادات سے بچ کر اپنے خاندان والوں کے ساتھ بھارتی گجرات کے سرحدی ضلع میں اپنے رشتے داروں کے پاس جارہی تھیں لیکن بدقسمتی سے ان کے قافلے پر ہندو بلوائیوں کے گروہ نے حملہ کردیا۔ بلقیس بانو کا گینگ ریپ کیا گیا ، ان کے خاندان کے سات افراد کوقتل کردیا گیا، جس میں ان کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی۔ بلقیس بانو کا گینگ ریپ کرنے والے گیارہ مجرموں کو سزا سنا دی گئی لیکن بعد میں ایک کالے قانون کا سہارا لیتے ہوئے مودی سرکار نے ان سب مجرموں کورہا کردیا۔ اب بلقیس بانو چوالیس سال کی ہو چکی ہیں۔ انہوں نے پچھلے سترہ سال انصاف کے لیے پورے نظام سے جنگ لڑ ی، آخرکار بھارتی سپریم کورٹ نے8 جنوری 2024 کو بلقیس بانو کے گینگ ریپ کے مجرموں کودوبارہ جیل بھیج دیا۔
فائنل ایکٹ ( قضیے کی ٹریجڈی)
اگست ، 2022 میں مظفر نگر، اتر پردیش میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے گردش کرنے لگی جس میں ایک اسکول ٹیچر اپنے شاگرد کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے سات سالہ ہم جماعت کے منہ پر زور سے تھپڑ مارے۔ اس مار کھانے والے بچے کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے ریاضی کے سوالات غلط حل کیے تھے۔ لیکن اس کا اصل قصور یہ تھا کہ وہ ایک ‘بھارتی مسلمان’ ہے۔ اس واقعے نے بھارتی مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا انہیں یوں لگا کے بی جے پی حکومت اب ان پر زمین تنگ کر رہی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں نے اس واقعے کا ذمہ دار مودی سرکار کو ٹھہرایا کیونکہ وہ بھارت میں مذہبی عدم برداشت اور اقلیتوں سے نفرت کو 2014 سےبڑھاوادینا چارہی تھی۔ یہ اس کا آخری حربہ تھا کہ اسکول کے بچوں کے ذہن بھی اسی نفرت سے بھر دئیے جائیں۔
ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کی ہمیشہ توثیق کی ہے۔ ہندو قوم پرست رہنما ‘وی ڈی سورکر’ جس نے ہندوقوم پرستی کا سیاسی نظریہ ‘ ہندوتوا’ پیش کیا، اس نے لکھا ہے کہ وہ مسلمان جو ‘ ہندو مفادات’ کی مخالفت کرے اس کا وہی حشر کیا جانا چاہیے جو جرمنی میں یہودیوں کا کیا گیا تھا۔
قابل غور بات یہ ہے اس چار ایکٹ کی ‘شکسپیرئین ٹریجڈی’ جو پیش کی گئی اور اس میں جو کچھ دکھایا گیا یہ سب کچھ بھارتی حکومت ( ان واقعات میں تیزی بی جے پی دور میں آئی) دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ کررہی تھی۔ اب ان ہولناک کارروائیوں کا نشانہ پورے بھارت کے مسلمان بن رہے ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی سیاست اور سماج کو پہلے ہی اپنے کٹھ پتلیوں کہ ذریعے جکڑا ہوا تھا اب بھارت اور کشمیر کی صحافت بھی دم توڑ چکی ہے۔ 2017 سے اب تک سات کشمیری صحافی بھارتی جیلوں میں قید ہیں اور جو قید نہیں ہیں وہ بھی ہراسانی اور سیلف سینسر شپ کا شکار ہیں۔ عالمی صحافتی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے بھارتی صحافیوں کہ لیے ‘سفرنگ ان سائلنس’ کا جملہ اپنی سالانہ رپورٹ میں لکھا تھا۔
مسئلہ فلسطین کی طرح بقول وسعت اللہ خان کشمیر کا ‘مسئلہ’ بھی عالمی ضمیر (اگر وہ ہوتا) کے گلے میں لٹکتا وہ طوق ہے جس کا شکنجہ روزبروز کستا جارہا ہے۔ اب یہ فیصلہ عالمی اداروں کو کرنا ہے کہ وہ بڑی طاقتوں کے ہمالیہ سے بلند معاشی مفادات کا تحفظ کرتے رہیں گے یا پھر خطہ میں جاری ظلم و بربریت پر بھارت اور مودی سرکار کے خلاف کارروائی کا آغاز کریں گے۔ بقول ساغر صدیقی
حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغر
سب ‘ تمہارے’ ہی طرفدار نظر آتے ہیں!
نوٹ: اس مضمون میں بیان کیے گئے واقعات اور اعداد وشمار ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ، ٹی آر ٹی میگزین ، دی وائر، انڈیا اور گارڈین اخبار سے لیے گئے ہیں۔