کل سب سوالوں کا جواب مل جائے گا؟ کون سی جماعت الیکشن جیتے گی؟ کس کو کون سی نشست ملے گی؟ سادہ اکثریت کی معراج کس کا مقدر بنے گی؟ دو تہائی کے جادوئی نمبر تک کون پہنچ سکے گا؟ قائد ایوان کا قرعہ کس کے نام نکلے گا؟ حکومت بنانے کے لیے کس جماعت کا کس سے اتحاد ہوگا؟ الیکشن پُرامن ہوں گے یا خونی؟ آر ٹی ایس اس دفعہ بھی بیٹھے گا یا نہیں؟ دھاندلی کی صدائیں اس دفعہ بھی آئیں گی یا نہیں؟ ووٹنگ کا ٹرینڈ کیسا رہے گا؟ کیا تحریک انصاف کے آزاد ارکان ووٹر کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ کیا نوجوان ووٹر مایوس ہو کر گھر بیٹھا رہے گا؟ صوبائی اسمبلیوں میں کیا پوزیشن رہے گی؟ کیا پنجاب مسلم لیگ کا قلعہ باقی رہے گا؟ سندھ میں پیپلز پارٹی کا مناظرہ بارش کے ساتھ بہہ گیا یا اس کے اثرات ابھی باقی ہیں؟ بلوچستان میں عوامی رائے کیا سرداری نظام پر حاوی ہو سکی؟ کے پی کے کیا عمران خان کی متشدد سیاست کے اثر سے نکل پائے گا؟ کیا آزاد ارکان اتنی تعداد میں کامیاب ہوں گے کہ اپنی حکومت بنا لیں؟ کیا عمران خان قصہ پارینہ ہو گئے؟ اور کیا نواز شریف چوتھی دفعہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟
اس سٹیج پر سوالات کے حتمی جواب دینا ناممکن ہے لیکن موجودہ حقائق کو سامنے رکھ کر کچھ اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔ اور ان تخمینوں کی بنیاد پر ایک تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ آنے والا سیاسی منظر نامہ کیسا ہوگا؟ بہت سے سوال لوگوں کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں؟ لوگ بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں؟ کیا ہونے والا ہے؟ لوگوں کا تجسس اپنی جگہ لیکن حقائق کو مدنظر رکھ کر کچھ نتائج مرتب کیے جا سکتے ہیں جن میں غلطی کا احتمال بہرحال رہتا ہے۔
اس سوال کا جواب قدرے آسان ہے کہ کون سے پارٹی زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ پاکستان میں پارٹی وہی جیتتی ہے جو پنجاب میں فتح یاب ہوتی ہے۔ تحریک انصاف پنجاب میں حالات کی وجہ سے درست طریقے سے الیکشن نہیں لڑ سکی۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں جگہ بنانے کی کوشش کرتی رہی مگر ابھی اس کو اپنی عظمت رفتہ بحال کرنے میں دہائیاں درکار ہیں۔ ن لیگ واحد پارٹی میدان میں ہے لہذا وہی کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے۔
کس جماعت کی کتنی نشستیں ہوں گی؟ رانا ثنا اللہ جو کہ مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر ہیں، انہوں نے کچھ عرصہ پہلے دعویٰ کیا تھا کہ ن لیگ پنجاب کی ایک سو اکتالیس نشستوں میں سے ایک سو بیس نشستیں حاصل کرے گی۔ اگر یہ تعداد ایک سو بھی ہوئی تو مسلم لیگ سادہ اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔
دو تہائی اکثریت کے جادوئی نمبر تک کسی بھی جماعت کا پہنچنا ممکن نظر نہیں آتا لیکن یہ بہت ممکن ہے کہ کچھ جماعتیں مل کر حکومت بنائیں اور ہم ایک دفعہ پھر پی ڈی ایم کی طرز پر ایک اور حکومت کا منظر دیکھیں۔
اکثریتی جماعت کے حیثیت سے مسلم لیگ ن ہی کا وزیر اعظم ہو سکتا ہے لیکن یہ وزیر اعظم شہباز شریف نہیں ہوں گے۔ وہ اپنی باری کھیل چکے ہیں۔ عوام میں وہ کبھی مقبول نہیں تھے اور سولہ ماہ کی حکومت میں مہنگائی نے عوام کی کمر بھی توڑ دی ہے۔ اس دفعہ اگر حالات درست رہے تو وزارت عظمیٰ کا ہما میاں نواز شریف کے سر پر بیٹھے گا۔ اس میں پاکستان کے دوست ممالک کے مرضی کا دخل بھی شامل ہو گا۔
ووٹنگ کی شرح کیسی ہوگی؟ ووٹنگ کی شرح منحصر ہے تحریک انصاف کے ووٹروں پر۔ اگر وہ بڑی تعداد میں گھروں سے نکل آئے تو ووٹنگ کی شرح زیادہ ہوگی۔ دوسری جانب اگر تحریک انصاف کا ووٹر مایوس ہوگا تو پھر ووٹنگ کی شرح کم ہوگی جس کا فائدہ دوسری سیاسی جماعتوں کو ہوگا۔ بلے کا نشان بھی ایک اہم فیکٹر ہوگا۔ بہت سے لوگ تحریک انصاف کو ووٹ ڈالنا چاہیں گے مگر ان کو اپنے امیدوار کا پتہ نہیں ہوگا۔ اس سے بھی تحریک انصاف کے ووٹرز کی کنفیوژن میں اضافہ ہوگا۔
کیا الیکشن میں اس دفعہ بھی آرٹی ایس سسٹم بیٹھ جائے گا؟ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں تاریخی دھاندلی کی گئی تھی۔ نواز شریف کو ہروانے کے لیے ان کی واضح فتح کو شکست میں بدلنے کے لیے آرٹی ایس کو بٹھایا گیا تھا۔ پاکستان میں کوئی انتخابات ایسے نہیں ہوئے جس میں دھاندلی کا الزام نہ لگے۔ خاص طور پر تحریک انصاف کبھی چار حلقے، کبھی پینتیس پنکچر والی مہم بڑی کامیابی سے چلا کر امن عامہ کو برباد کر چکی ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس دفعہ دھاندلی کی شکایت بالکل نہیں ہوگی لیکن یہ حتمی طور پر ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس دفعہ اس کے لیے آر ٹی ایس کا سہارا نہیں لیا جائے گا۔
کیا اس دفعہ انتخابات پُرامن ہوں گے یا خونی؟ انتخابات سے پہلے ہی امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایسے واقعات ہوئے جن میں اس طرح کے سانحات کا اندیشہ لگا رہا۔ دہشت گردی کے واقعات آئے روز ہونے لگے ہیں۔ بے گناہ جانوں کا ضیاع اب روز کی خبر بن چکا ہے۔ اس لیے ہمیں بدقسمتی سے ہر خطرے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں امن عامہ کی صورت حال پر گہری نگاہ رکھنا ہوگی۔
ایک سوال جو تواتر سے پوچھا جا رہا ہے وہ یہ کہ اگر آزاد ارکان کی ایک بڑی تعداد انتخابات میں کامیاب ہو گئی تو کیا اس سے تحریک انصاف کے لیے رستے کھل جائیں گے۔ میری ذاتی رائے میں نو مئی کے بعد تحریک انصاف کے لیے سب رستے مسدود ہو چکے ہیں۔ اب اگر عمران خان کی نا دیدہ کال پر آزاد ارکان بڑی تعداد میں منتخب بھی ہو جاتے ہیں تو وہ زیادہ دیر تک آزاد نہیں رہیں گے، انہیں کسی بڑی سیاسی جماعت کا دامن تھامنا پڑے گا۔ یہی بات تحریک انصاف کے ووٹر کی مایوسی کا سبب بن رہی ہے۔