پاکستان میں بڑھتے ہوئے افراط زر نے ہر شعبہ زندگی کا متاثر کیا ہے۔ ڈالر کی کمی کے سبب امپورٹرز کو لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ نتیجتاً اس کا اثر مقامی مارکیٹوں پر پڑ رہا ہے۔ بیرون ملک سے آنے والے خام مال کی قلت نے جن صنعتی شعبوں کو متاثر کیا ہے۔ ان میں پبلشنگ انڈسٹری بھی شامل ہے۔
پاکستان میں کاغذ کا بحران کیا رنگ دکھا رہا ہے اور اس کا براۂ راست اثر ایک عام آدمی پر کس طرح پڑ رہا ہے۔ اس حوالے سے وی نیوز سے اپنی خصوصی گفتگو میں چیئرمین پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن خالد عزیز نے بتایا کہ خام مال کی عدم دستیابی کے باعث ملک میں کاغذ کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے چھ ماہ میں فی کلو کاغذ کی قیمت سو سے بڑھ کر پانچ سو روپے تک ہو گی ہے۔
خالد عزیز کے مطابق کتابوں کی تیاری میں استعمال ہونے والی شیٹ بھی سو سے بڑھ کر آٹھ سو روپے تک ہوگئی ہے۔ جب کہ سستی امپورٹڈ کتاب کی قیمت چار سو روپے سے بڑھ کر بارہ سو روپے تک پہنچ گئی ہے۔
کاغذ ری سائیکلنگ میں مضر صحت کیمیکل استعمال ہو رہا ہے
چیئرمین پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں چھ ماہ سے تقریباً امپورٹڈ کاغذ کے ایک ہزار کنٹینرز پورٹ پر کھڑے کلیرنس کے منتظر ہیں۔ کتابوں کی جلد سازی میں استعمال ہونے والا کور ’ایل سی‘ کلیئر نہ ہونے سے ناپید ہوگیا ہے۔
انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ اس وقت مقامی کاغذ امپورٹڈ کاغذ کے مقابلے میں زیادہ مہنگا ہے۔ خالد عزیز نے انکشاف کیا کہ کاغذ کی طلب پوری کرنے کے لیے مقامی مینوفیکچرز ردی کاغذ کو ری سائیکل کرنے کے عمل میں مضر صحت کیمیکل استعمال کر رہے ہیں۔
نئے تعلیمی سال میں امپورٹڈ کتابیں میسر نہیں ہوں گی
چیئرمین پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ کاغذ کے اس بحران کے سبب دواؤں اور بسکٹ کے ڈبوں کی لاگت میں بھی چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ اس مرتبہ کیمبرج، او لیول، اے لیول، انجینئرنگ، میڈیکل اور قانون کے طلبہ کو نئے تعلیمی سال میں امپورٹڈ کتابیں میسر نہیں ہوں گی۔
خالد عزیز کے مطابق اس وقت ہول سیل مارکیٹ میں پچاس صفحوں پر مشتمل کتاب کی قیمت 40 سے بڑھ کر 100 روپے کی ہوگئی ہے۔ جب کہ سو صفحات والی کتاب 80 سے بڑھ کر 150 روپے کی ہوگئی ہے۔