پرائس کنٹرول کمپنیوں کے ہاتھ: کون سی دوائیں مہنگی ہوجائیں گی؟

بدھ 21 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نگراں وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا اختیار مینو فیکچررز اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔

یہ بات واضح ہے کہ جب حکومت نے ادویات کی قیمتوں کے تعین کا اختیار فارماسیوٹیکل کمپنیوں  اور ڈسٹری بیوٹرز کو دے دیا گیا ہے اس لیے نہ صرف اس سے ادویات مہنگی ہوں گی بلکہ کچھ دوائیں مارکیٹ میں نایاب بھی ہو سکتی ہیں۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے فارماسسٹ ڈاکٹر فرید خان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت نے لوگوں پر ظلم کیا ہے کیوں کہ حکومت کے اس فیصلے سے تمام مینوفیکچررز اور تمام ادویات ساز کمپنیاں دوائیوں کی اپنی من مانی قیمتیں لگائیں گی جو نہ صرف مہنگائی کا بوجھ عوام پر ڈالیں گی بلکہ مارکیٹ میں کچھ دوائیں ملنا مشکل ہو جائیں گی۔

کاؤنٹر میڈیسن کا کیا ہوگا؟

فرید خان نے کہا کہ کچھ علاقوں میں چند مخصوص دوائیاں ایسی ہیں جو عام بخار، نزلہ، زکام کے لیے میڈیکل اسٹورز پر دستیاب ہوتی ہیں وہ ملنا مشکل ہو جائیں گی جس کی وجہ یہ ہے کہ مالدار لوگ وہ دوائیاں بلک میں اٹھا لیں گے اور جس کے بعد پھر بہت سی جگہوں پر کچھ دوائیاں ملنا مشکل ہو جائیں گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پہلے تو ہر شخص کو ریٹ معلوم ہوتا تھا لیکن اب چوں کہ سب کے الگ الگ ریٹ ہوں گے تو کسی کو دوائی کی درست قیمت پتا ہی نہیں ہوگی اور ایک جگہ پر اگر کوئی دوائی 85 روپے کہ ہے تو کہیں اور 100 روپے کی ہوگی۔

جعلی و ناقص ادویات بڑھ جائیں گی

انہوں نے بتایا کہ دوائیوں کی قیمت میں من مانے اضافے کے بعد مارکیٹ میں جعلی دوائیاں بھی عام بکنے لگیں گی ار کچھ لوگ جعلی دوائیاں پرانی قیمتوں پر بیچتے نظر آئیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر کوئی اس شعبے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ ہمارے ہاں شرح خواندگی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو تو دوائی کے اصل ریٹ کے بارے میں جاننا مشکل ہو جائے گا باقی دوائی جعلی ہے یہ تو دور کی بات ہے لہٰذا نگراں حکومت کا یہ فیصلہ بہت غلط ہے۔

چئیرمین پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن ( پی پی ایم اے) میاں خالد مصباح الرحمن نے اس حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں سنہ 1976 کا قانون چلا آ رہا ہے اور اگر حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے تو یہ کوئی دنیا سے الگ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر صرف بنگلہ دیش، سری لنکا اور انڈیا کی ہی بات کی جائے تو وہاں بھی حکومت صرف ضروری ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرتی ہے جبکہ دیگر ادویات کی قیمتیں مینوفیکچررز ہی کنٹرول کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں 237 ڈرگز، بنگلہ دیش میں 117 اور سری لنکا میں صرف 66 ادویات کی قیمتیں حکومت کی جانب سے کنٹرول کی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں 464 دوائیوں کی قیمتیں کنٹرول کی جاتی ہیں۔

دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے، دواساز ادارے

میاں خالد نے کہا کہ پاکستان دنیا میں اس کیٹیگری میں آئے گا جہاں سب سے زیادہ دوائیوں کی قیمتوں کو کنٹرول کی جا رہا ہے جبکہ انڈیا میں سنہ 2012 میں ہی اس حوالے سے قانون آ گیا تھا اور بنگلہ دیش میں بھی کافی پہلے ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے قانون بن گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں  اب جو یہ فیصلہ کیا گیا ہے یہ بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے ہی کیا گیا ہے نہ کہ فارما انڈسٹری کو فیور کیا جا رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس کا فائدہ سب سے بڑا یہ ہوگا کہ جب مارکیٹ میں مقابلہ کرنے والی مزید کمپنیاں آئیں گی کیوں کہ ابھی اگر مہنگائی کی وجہ سے کسی دوائی کی قیمت بڑھانا چاہیں تو نہیں بڑھا سکتے کیونکہ قیمت بڑھانے کا اختیار نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر انڈسٹری کو اختیار دیا جائے تو اس مقابلہ زیاد ہوگا جس کی وجہ سے انوسٹمنٹ بھی زیادہ آئے گی اور وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں جو یہاں سے جانا شروع ہو گئی تھیں وہ کام کریں گی۔ کیوں کہ ایک زمانہ تھا جب تقریبا 40 ملٹی نیشنل کمپنیاں تھیں جو کہ اب صرف 5 سے بھی کم رہ چکی ہیں جو کام کر رہی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ باقی سب کا مؤقف یہی تھا کہ اس سب کے ساتھ پاکستان میں کام کرنا ممکن نہیں ہے تو اگر اس حوالے سے بات کی جائے تو یہ ایک مثبت قدم ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ دوائیوں کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ جائیں گی تو اب بھی 464 دوائیوں کی قیمتیں کنٹرول ہوں گی جو دنیا میں کہیں بھی اتنی نہیں ہیں۔

’جعلی ادویات کی نوبت نہیں آئے گی‘

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کمپنیوں نے جنہوں نے دوائیاں بنانی بند کر دی تھیں دوائی بنانا آسان ہوجانے کی صورت میں بغیر نقصان کے دوائی بنا کر بیچیں تو اس سے مارکیٹ میں اصلی دوائیوں کی موجودگی رہے گی تو فیک میڈیسن کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتوں اور ڈریپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ چیک اینڈ بیلنس رکھیں اور ڈریپ کی جانب سے ’سیریلائزیشن‘ کا عمل بھی شروع کر دیا ہے جس کا مطلب یہ کہ ہر الگ پیک پر بھی ایک 2 ڈی ڈیٹا میٹرکس کوڈ آئے گا جو اس بات کی تشخیص کرے گا کہ دوائی اصلی ہے یا نہیں اور ہر شخص موبائل سے اسکین کر کے آن لائن چیک کر سکے گا۔

’کچھ فارماسیوٹیکل کمپنیاں ڈاکٹروں سے اپنی ادویات لکھوائیں گی‘

سینیئر ہیلتھ رپورٹر وقار بھٹی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ نے رواں مہینے کے آغاز میں ادویات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے ساتھ نیشنل اسینشیل لسٹ میں شامل ادویات کی قیمتیں حکومت نے خود کنٹرول کرنے کا اختیار لیا لیکن یہاں اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے اسینشیل لسٹ میں موجود ادویات میں سے 146 ادویات کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔

وقار بھٹی نے بتایا کہ اس کے نتیجے میں کچھ فارماسیوٹیکل کمپنیاں ڈاکٹرز کو پیسے دے کر ادویات لکھوائیں گی کیوں کہ مریض کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ معیاری کمپنی کون سی ہے اور پھر ان ادویات کی قیمتیں بھی زیادہ ہوں گی تو عوام پر اس کا بوجھ بڑھے گا جبکہ نگراں حکومت کا یہ مینڈیٹ ہی نہیں تھا کہ وہ یہ کام کرتی۔

’146 ادویات کی قیمتیں حکومت نے خود بڑھادیں‘

پریمیئر انٹرنیشنل اسپتال سے وابستہ آئی سی یو اسپیشلسٹ ڈاکٹر فضل ربی نے نیشنل اسینشیل ادویات کی فہرست سے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس لسٹ کے مطابق تمام ادویات کی قیمتیں حکومت کو کنٹرول کرنی ہیں اور اس لسٹ میں تمام جان بچانے والی ادویات کے نام شامل ہیں۔

ڈاکٹر فضل ربی نے کہا کہ تمام ادویات جن کی قیمتیں حکومت کے کنٹرول میں ہوں گی وہ سب وہ ہیں جو عام طور پر اسپتالوں میں آئی سی یو، ایمرجنسی اور دیگر بیماریوں کے لیے استعمال کی جا رہی ہوتی ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں جب اس میں سے 146 ادویات کی قیمتیں حکومت نے خود بڑھا دی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کے پیش نظر ان ادویات کا نیشنل اسینشیل لسٹ میں ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مریضوں کو فہرست سے کیا لینا ہے انہیں تو جان بچانے کے لیے سستی ادویات چاہیے ہوتی ہیں جو انہیں اب دستیاب نہیں ہوں گی اور یہ حکومت کی جانب سے غریبوں پر ظلم ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ سانس کی بیماریوں سے لے کر فالج، الرجی، اینٹی بائیوٹکس ویکسینز اور کینسر کی ادویات تک لسٹ میں شامل ہیں اور اس لسٹ میں شامل ہوں یا نہ ہوں ان تمام ضروری ادویات کی قیمتوں میں اضافہ معنی رکھتا ہے جو ہو چکا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp