غگ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب آواز لگانا یا اعلان کرنا ہے۔ یہ رسم بنیادی طور پر جنوبی وزیرستان سے شروع ہوئی اور پھر دیگر قبائلی اضلاع اور صوبے کے دیگر علاقوں تک پھیل گئی۔
غگ کے تحت اگر کوئی شخص کسی لڑکی سے شادی کا اعلان کرتا ہے تو وہ جا کر اس لڑکی کے گھر کے سامنے 4 فائر کرتا ہے۔ ان فائرز کے بعد علاقے کا کوئی آدمی اس لڑکی کے لیے رشتہ نہیں بھجواتا یوں اس لڑکی کے لیے رشتے آنا بند ہو جاتے ہیں۔
اس رسم میں لڑکی، اس کے والدین یا رشتہ داورں کی رضامندی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔
اس فرسودہ روایت کا مقصد لڑکی سے شادی کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس روایت کے ذریعے خاتون کے خاندان کو تنگ کرنا یا اپنی شرائط پر ان سے شادی معاملات طے کرنا ہوتا ہے۔
اس رسم کے حوالے سے میری سہیلی نے مجھے کہ غگ کا واقعہ ان کے پڑوس میں پیش آیا تھا۔ “صبح کا وقت تھا سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ اچانک ہمارے پڑوس کے گھر کے باہر دروازے پر زور دار فائرنگ ہوئی ہر طرف خاموشی اور خوف پھیل گیا۔ ایسا لگا کہ شاید کسی کو مار دیا گیا ہو۔ لیکن یہ غگ کی رسم پر عمل ہو رہا تھا اور ہوائی فائرنگ والے نے اعلان کیا کہ اس گھر میں جو لڑکی رہتی ہے، وہ اس سے شادی کرے گا اور کسی اور کو اس سے شادی نہیں کرنے دے گا۔ اگر کسی اور نے اس سے شادی کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔”
غگ کے تحت شادی کا طریقہ کار
یہ رسم قبائلی علاقوں خاص طور پشتون علاقوں میں پائی جاتی تھی اور اب بھی کسی حد تک موجود ہے۔ اس کے تحت لڑکے کے گھر والے پہلے تو رشتہ مانگنے کے لیے لوگ بھیجتے ہیں۔ لڑکی والوں کی جانب سے انکار کی صورت میں لڑکے والے پھر غگ یعنی پکار یا اعلان کرتے ہیں جس میں لڑکی کے گھر والوں کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
غگ سیدھی دھمکی ہوتی ہے کہ علاقے کے لوگ اس لڑکی کا رشتہ نا بھیجیں اور اگر کوئی بھیجنے کی جرات کرتا ہے تو پھر دشمنیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اب آپ بتایئں کہ غگ کے بعد کون بیٹھے بٹھائے دشمنی مول لینے کو تیار ہوتا ہے؟
اس رسم کی وجہ سے لڑکی اور اس کے گھر والے بری طرح سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اس لڑکی کی اسی لڑکے سے شادی ہو جس نے غگ کی رسم کے تحت اس کے گھر کے باہر فائرنگ کی تھی۔ اکثر وہ لڑکی ہمیشہ کے لیے گھر بیٹھ جاتی ہے اور اس کا رشتہ کہیں بھی نہیں ہو پاتا ہے کیونکہ لوگ اس لڑکی کے رشتے سے گریز کرتے ہیں۔
کیا غگ رسم اب بھی موجود ہے؟
جی ہاں یہ رسم اب بھی موجود ہے لیکن سول سوسائٹی اور لوگوں میں شعور پیدا ہونے کے بعد ان واقعات میں کافی کمی واقع ہونا شروع ہوئی ہے۔
2021 میں جنوبی وزیرستان میں غگ کے 6 واقعات پیش آئے جن میں لڑکوں نے غگ کے زریعے شادی کے اعلانات کیے۔ غگ رسم میں کسی نا کسی حد تک کمی تو آئی ہے مگر بد قسمتی سے غگ رسم رپورٹ نہیں ہوتی۔ زیادہ ترخواتین ڈر اور روایات کے مارے منہ بند کر کہ خون کے انسو پی کر زندگی بسر کر رہی ہوتی ہیں۔
حال ہی میں خیبر پختونخوا کے نگران وزیر برائے امور ضم اضلاع، صنعت وحرفت اور فنی تعلیم ڈاکٹر عامر عبد اللہ نے بعض قبائلی علاقوں میں غگ کی شکایات ملنے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو اس قابل نفرت اور عورت دشمن رسم کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ہدایت دی تھی۔
غگ رسم کی سزا
غگ ایکٹ کی شق نمبر 7 میں یہ عمل ایک ناقابل ضمانت اور ناقابل راضی نامہ جرم ہے۔ اس ایکٹ کے شق نمبر 4 کے تحت جرم ثابت ہونے پر اس کی سزا زیادہ سے زیادہ 7 سال اور کم سے کم 3 سال قید اور 5 لاکھ روپے تک جرمانہ ہے۔
غگ ایکٹ کب منظور ہوا؟
غگ کے خاتمے کے لیے اگرچہ مختلف ادوار میں آواز اٹھائی گئی ہے لیکن سال 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے اس فرسودہ روایت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرتے ہوئے قانون سازی کی اور پھر صوبائی اسمبلی سے یہ قانون منظور کروایا تھا۔
عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رکن صوبائی اسمبلی ستارہ ایاز نے غگ ایکٹ کے قانون کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
غگ ایک قابل سزا جرم اور عورت مخالف بدترین رسم ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے۔ خواتین کو بھی اس رسم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیۓ تاکہ کوئی بھی عورت کو کمزور سمجھ کر اس پر اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کرنے کی جرات نہ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس اور متعلقہ محکموں کو بھی معلومات ہونی چاہیۓ کہ غگ اب ایک قابل گرفت جرم ہے تاکہ وہ اس کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لا سکیں۔