بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے قریباً 80 کلومیٹر کی مسافت کے بعد سب جیوانی، تحصیل سنٹ سرمیں کنٹانی باردڑ واقع ہے۔ گوادر اور محلقہ اضلاع کے ہزاروں افراد کا روزگار اسی بارڈر سے جڑا ہے۔ نہ صرف بلوچستان بلکہ اندرونِ سندھ سے آئے سینکڑوں مزدوروں کی روزی روٹی بھی یہاں کی غیر رسمی تجارت سے منسلک ہے۔
دوسرا بڑا ذریعہ معاش
ماہی گیری کے بعد کنٹانی بارڈر گودار کے ساحلی شہر کی دوسرا بڑا ذریعہ معاش ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت کنٹانی بارڈر پر 400 سے 500 ڈپو ہیں۔ ہر ڈپو میں مالکان کے علاوہ 10 سے 15 مزدور کام کرتے ہیں، جن کی معاشی ضروریات کا درومدار یہاں سے ملنے والی اجرت پر ہے۔
کاہک
روزانہ یہاں ایک ہزار کے قریب کاہک ( بوٹ/کشتی) سمندر کنارے لنگر اندوز ہوتی ہیں۔ مزدور ان کشتیوں سے تیل کے کین اور ڈرم اتارتے ہیں۔ یہی تیل پھر ڈپو پر جاتا ہے جہاں سے گاڑیوں والے ملک کے مختلف حصوں میں لے جاتے ہیں۔
یہاں ایک رات گزارنا بھی مشکل ہے
اس کاروبار سے وابستہ بیشتر افراد مزدوری اور ڈرائیوری کے کام سے وابستہ ہیں۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ان مزدوروں کا کہنا تھا کہ یہاں ایک رات گزارنا بھی مشکل ہے، مگر وہ اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے یہ مشکلات ہنس کر سہہ رہے ہیں، کیونکہ ایک باپ سب کچھ برداشت کر سکتا ہے، اپنے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا۔
جھونپڑیوں کا شہر
کنٹانی میں سمندر کنارے جس طرف بھی نگاہ دوڑائیں، جھونپڑیوں کا ایک شہر آباد نظر آتا ہے۔ یہاں پر مزدور دوپہر 2 بجے تک سمندر کنارے مزدوری کرتے ہیں اور اس کے بعد تھکاوٹ دور کرنے جھونپڑیوں میں چلے جاتے ہیں۔
بارڈر کی غیر اعلانیہ بندش
یوں تو کنٹانی ایک ویرانہ ہے اور یہاں رہنا اور کام کرنا ایک چیلنج ہے، مگر کام چل رہا ہو اور مزدوری مل رہی ہو تو یہ مزدور یہاں خوش رہتے ہیں۔ لیکن اکثر یہ بارڈر غیر اعلانیہ طور پر ہر قسم کے کاروبار کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔ بندش کی وجہ نہ صرف مزدوروْں کو کام نہیں ملتا بلکہ تیل لینے کے لیے آئے ڈرائیورز بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔
یہ ڈرائیور ہزاروں روپے کا ایندھن جلا کر کنٹانی پہنچتے ہیں جہاں انہیں بارڈر بندش کی خبر ملتی ہے۔ خالی ہاتھ واپس جانے کے مقابلے میں یہ ڈرائیور یہیں رک کر انتظار کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن انتظار کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان کی کمائی کے آدھا حصہ یہیں خرچ ہو جاتا ہے کیونکہ یہاں کھانے پینے اور دیگر ضرورت کی اشیا بہت مہنگی ہیں۔
مہنگا ترین کھانا
پنجگور سے آئے احسان اللہ نے بتایا کہ یہاں ایک رات کا کھانا تقریباً 2000 سے 3000 روپے تک پڑتا ہے۔ سہولیات کا فقدان ہے اور پینے کا پانی بھی مہنگے داموں خرید کر پینا پڑتا ہے۔
بارڈر کے کاروبار سے وابستہ افراد کی شکایات بارے اسسٹنٹ کمشنر گوادر کا کہنا تھا کہ وہ حال ہی میں یہاں تعینات ہوئے ہیں اور انہیں اس بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔
کبھی کبھی بارڈر بند کرنا پڑتا ہے
دوسری جانب نومنتخب ضلعی وائس چیئرمیں میر نعمت اللہ ہوت کا بارڈر بندش بارے کہنا تھا کہ سیکیورٹی خدشات اور ڈپو والوں کی جانب سے قانون کی خلاف ورزیوں سمیت دیگر ناگزیر وجوہات کی بنا پر کبھی کبھی بارڈر بند کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ہماری کوشش ہے کہ بارڈر اتوار کے علاوہ بند نہ ہو۔
کاروبار کی بندش کا عندیہ
اس حوالے سے میں حکومت بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی کا کہنا تھا کہ یہ کاروبار کوئی قانونی نہیں، کنٹانی سے تیل بذریعہ روڈ کراچی جاتا ہے حالانکہ اس کی صرف بلوچستان میں اجازت ہے، دوسرے صوبوں میں نہیں۔ انہوں نے اس کاروبار کو آہستہ آہستی بند کرنے کا عندیہ بھی دیا۔