نومنتخب اراکین پنجاب اسمبلی کی حلف برداری پر مشتمل افتتاحی اجلاس 23 فروری کو منعقد ہوا جس میں اپوزیشن اراکین سیاہ پٹیاں باندھ کر ایوان میں داخل ہوئے اور حلف اٹھانے سے قبل نعرے بازی سے ماحول گرما دیا، اس کشیدہ صورتحال میں اراکین نے حلف اٹھالیا تاہم اگلا مرحلہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے الیکشن کا تھا۔
اس دن بھی اپوزیشن اراکین نے اپنی نشستوں سے اٹھ کر ایوان میں خوب نعرے بازی کی اور تنقیدی جملے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی موجودگی میں کستے رہے، اس ماحول میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کا مرحلہ بھی عبور کرلیا گیا جس کے بعد موقعہ آیا وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا۔
مزید پڑھیں
اس روز بھی اپوزیشن اراکین اپنے جارحانہ انداز میں ایوان میں پہنچے اور بات کرنے کی اجازات نہ ملنے پر ایوان سے واک آؤٹ کر گئے، جنہیں منانے کے تین راؤنڈز بھی ہوئے تاکہ انہیں وزیر اعلیٰ کے انتخابی عمل کا حصہ بنایا جاسکے تاہم اپوزیشن اراکین ایوان میں واپس نہیں آئے۔
اپوزیشن اراکین کی غیر موجودگی میں ہی اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے اراکین اسمبلی کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا حکم دیدیا، جس کے اختتام پر مسلم لیگ ن کی امیدوار مریم نواز 220 ووٹ لے کر پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلی بن گئیں۔
نومنتخب وزیر اعلیٰ کا جذبہ خیر سگالی اور اپوزیشن کا رویہ
اس کشیدہ صورتحال میں 28 فروری کو پھر بجٹ اجلاس طلب کیا گیا لیکن اس مرتبہ ایوان میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی غرض سے نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اپوزیشن رہنما رانا آفتاب احمد خان کی نشست پر گئیں اور خیر سگالی کے جذبے کا اظہار کیا۔
’میں آپ سے یہی کہنے آئی ہوں کہ آپ سب کے لیے میرے دروازے کھلے ہیں کیوںکہ میں جتنی حکومتی ارکان کی وزیر اعلیٰ ہوں، اتنی ہی آپ کی بھی ہوں۔‘ اپوزیشن رہنما نے وزیراعلیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس دن ہمیں کوئی جگہ بتادی جاتی تو ہم پہنچ جاتے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن رہنما رانا آفتاب نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب ہمارے پاس آئیں، ہم ان کی عزت کرتے ہیں لیکن ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا ہے، ہم کیسے اس رویے کو بھول سکتے ہیں، رویہ بدلنے کی ضرورت اپوزیشن کو نہیں بلکہ مریم نواز کو ہے۔
’وہ (مریم نواز) ابھی نوے کی دہائی کی سیاست کرنا چاہتی ہیں، ہماری زبان بندی ہوگی، تو ہم اس ایوان کو چلنے نہیں دیں گے، اگر وہ ہمارے ساتھ اچھے رویہ کی توقع کرتی ہیں تو اس چوری کے مینڈیٹ کو چھوڑ دیں اور اپنا دھونس دھاندلی کا رویہ بدلیں۔‘
اپوزیشن ایوان میں اپنا رویہ جارحانہ ہی رکھے گی؟
اپوزیشن کے ایک اور رہنما نے وی نیوز کو بتایا کہ ہمیں عمران خان کی ہدایت ہے کہ دلیل کی بات کے بجائے سختی کی زبان استعمال کرو کیونکہ دلیل سے بات کریں تو کوئی سنتا نہیں ہے۔ ’جس کو خان صاحب نے اپوزیشن لیڈر مقرر کیا ہے وہ ابھی تک حلف نہیں اٹھا سکا ہے۔‘
’حالانکہ پشاور ہائی کورٹ نے میاں اسلم اقبال کو ضمانت بھی دے رکھی ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ ضمانت کے باوجود کچھ لوگ انہیں گرفتار کرنا چاہتے ہیں، جس کے آگے وزیر اعلیٰ اور اسپیکر بھی بے بس ہیں، اس پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم ایوان میں خاموشی سے ان کی باتیں سن کر چلے جائیں۔‘
مذکورہ رہنما کے مطابق مسلم لیگ ن بھول جائے گی جس طرح کی اپوزیشن اب ہوگی کیونکہ جو ظلم پچھلے ایک سال سے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ روا رکھا گیا کہ وہ سب کو پتا ہے، لوگ اس ظلم سے نکل کر ایوان میں آئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم اس رویے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
’ہمارا رویہ ایوان کے اندر جارحانہ ہوگا اور ہمارے اراکین بھی ہر اجلاس میں اپنی بھرپور شرکت یقینی بنائیں گے، ہمارے 90 سے 100 کے قریب اراکین ہمیشہ ایوان میں موجود رہیں گے، ہم اس جعلی مینڈیٹ والی حکومت کو نہیں چلنے دیں گے۔‘