کیا ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو جیل بھیجا جاسکے گا؟

جمعہ 1 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے آج ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہریار آفریدی کا تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری آرڈر نکالنے سے متعلق توہین عدالت مقدمے میں مس کنڈکٹ کا مرتکب دیا اور 6 ماہ قید اور 1 لاکھ روپے جرمانے کا فیصلہ سنایا۔

مزید پڑھیں

ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر کو بھی مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے 4 ماہ قید اور 1 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ ایس ایچ او کو 2 ماہ قید کی سزا اور 1 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن عدالت نے مذکورہ سزائیں 30 روز کے لیے معطل کردیں، تاوقتیکہ ملزمان سزاؤں کے خلاف اپیل دائر کرسکیں اور اگر سزائیں معطل نہیں ہوتیں تو مذکورہ سرکاری افسران کو جیل جانا پڑے گا۔

ہم نے اپیل دائر کردی ہے، راجہ رضوان عباسی

ڈپٹی کمشنر عرفان نواز میمن کے وکیل راجہ رضوان عباسی ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے سزا کے خلاف اپیل دائر کردی ہے اور ان کا کیس کافی مضبوط ہے اور انہیں پورا یقین ہے کہ سزائیں معطل ہوجائیں گی۔

راجہ عباسی ایڈووکیٹ سے پوچھا گیا کہ اگر سزائیں معطل ہونے کے بجائے کنفرم ہوگئیں تو کیا اثرات ہوں گے، جس پر انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ڈپٹی کمشنر صاحب کی ملازمت جاسکتی ہے۔

راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ مختصر سزا میں یہ اختیار عدالت کے پاس ہوتا ہے کہ وہ سزا معطل کردے اور یہ اختیار عدالت نے استعمال کیا۔

علامتی سزائیں سنائی گئیں، جہانگیر جدون ایڈووکیٹ

سابق ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اور دیگر کو جو سزا سنائی گئی ہے وہ علامتی ہے کیونکہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا کہ عدالت سزا سنائے اور ساتھ ہی معطل بھی کردے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقدمے میں جب ڈپٹی کمشنر اپیل دائر کریں گے تو امید ہے کہ سزا معطل ہوجائے گی۔

ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ سزا ڈپٹی کمشنر کی ملازمت پر اثرانداز ہوسکتی ہے، جس پر  جہانگیر جدون نے کہا کہ اگر تو سزا کنفرم ہوگئی تو یقیناً ان کی ملازمت پر اثرانداز ہوگی، لیکن جن الزامات کے تحت ان کو سزا سنائی گئی ہے تو یہ واضح رہے کہ اس وقت سول بیوروکریسی بالکل بے بس ہے، ہائبرڈ رجیم ہے اور دباؤ میں سول بیوروکریسی کو ایسے کام کرنے پڑتے ہیں۔

اختیارات کے ناجائز استعمال کے تحت سزا 3، 4 سال ہے، ذوالفقار احمد بھٹہ

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل ذوالفقار احمد بھٹہ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانون میں یہ درج ہے کہ اگر کسی کو 1 سال سے کم کی سزا سنائی گئی ہے تو سزا سنانے والی عدالت ہی اس سزا کو معطل کرسکتی ہے جب تک کہ وہ اپیل دائر نہ کردے۔

مینٹینینس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت نقص امن کے خدشے کے تحت کسی سرکاری افسر کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی کو قید کرسکتا ہے لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 92-291 کے تحت مذکورہ افسر نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو 6 ماہ کے بجائے 3 سے 4 سال کی سزا مل سکتی ہے اور ساتھ میں توہین عدالت کی سزا بھی ملتی ہے جس کے نتیجے میں نوکری اور پینشن سب ختم ہوجاتا ہے۔

ذوالفقار احمد بھٹہ نے کہا کہ آئندہ آنے والے دنوں میں کئی دیگر افسران کے خلاف بھی اس طرح کی کارروائیاں ہوں گی۔ پولیس اور بیوروکریسی کے طریقے بہت غلط ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ موٹروے ریپ کیس میں پنجاب پولیس نے ملزمان کے گھر کی بیٹیاں اٹھا لی تھیں اور انہیں تھانے میں رکھا گیا جو سراسر غیر قانونی ہے۔

سرکاری افسران کو سزا سنا کر اچھی مثال قائم کی گئی، حسنین کاظمی

سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب حسنین کاظمی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت قانون 1972 کی 2 اقسام ہیں، ایک یہ کہ جانتے بوجھتے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی جائے اور دوسرے عدالت کو اسکینڈلائز کرنا۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر عدالتیں ایسے مقدمات میں بہت تحمل کا مظاہرہ کرتی ہیں اور افسران چیمبر میں جاکر معافی مانگ لیتے ہیں لیکن ان افسران نے عدالت کو الجھانے کی کوشش کی اور میں سمجھتا ہوں کہ قانون کی حکمرانی کے حوالے سے یہ بہترین فیصلہ جاری کیا گیا ہے۔

مقدمہ کی اضافی تفصیل

واضح رہے کہ عدالتی فیصلے کی کاپی وزیرِاعظم کو بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ 16 اگست 2023 کو عدالت نے توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 7 ستمبر کو ڈی سی اور دیگر افسران پر فردِ جرم عائد کی تھی جبکہ 21 فروری کو اس مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp