ایوان صدر کے مکین کی ذمے داری ہے کہ وہ وزیراعظم پاکستان اور ان کی کابینہ سے حلف لیں لیکن کیا وہ حالیہ انتخابات کے بعد بننے والی حکومت اور اس کے سربراہ یعنی میاں محمد شہباز شریف سے حلف لیں گے؟ معمول کے حالات میں تو ایسے کسی سوال کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن صدر مملکت کا منصب جب سے ڈاکٹر عارف علوی کے تصرف میں آیا ہے، یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے اور انہوں نے بھی اپنے عمل سے بار بار یہ ثابت کیا۔ جیسے حال ہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے معاملے میں انہوں نے منفی رویہ اختیار کیا۔
کل تک جو نہیں جانتا تھا، آج اسے بھی خبر ہو گئی ہے کہ قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس انتخابات کے ٹھیک 3 ہفتوں کے بعد ہو جانا چاہیے۔ ضابطے کے مطابق وزارت پارلیمانی امور اجلاس کی سمری تیار کر کے وزیراعظم کو ارسال کرتی ہے جسے وہ اپنی سفارش کے ساتھ صدر مملکت کو ارسال کر دیتے ہیں۔ اس بار بھی یہی ہوا لیکن تماشا یہ ہوا کہ صدر مملکت یہ سمری لے کر بیٹھ گئے۔ نہ اقرار نہ انکار۔ اس خاموشی کا سبب کیا تھا؟ یہ بتانے کے لیے ایوان صدر کے ذرائع خاموش تھے۔ صدر ممنون حسین کا زمانہ یاد آتا ہے۔ ایک بار بڑا دلچسپ واقعہ ہوا، ٹیلی ویژن چینلوں پر آدھی رات کے وقت خبر چلنی شروع ہوئی کہ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صدر مملکت سے چھٹی منظور کروائے بغیر ہی رخصت پر چلے گئے۔
ابھی یہ خبر میری نگاہ سے گزری ہی تھی کہ فون کی گھنٹے بجی۔ دوسری طرف صدر مملکت تھے۔ پوچھا کہ سوئے تو نہیں تھے؟ عرض کیا کہ سر، جاگ رہا ہوں اور خبر بھی میری نگاہ سے گزر چکی ہے۔ ( کالم نگار ان دنوں صدر ممنون حسین کے مشیر تھے، ادارہ) کہنے لگے کہ اسی بات پر تو میں پریشان ہوں کہ چھٹی تو منظور کی جا چکی ہے پھر کیوں ایسی گمراہ کن خبر چل رہی ہے؟ عرض کیا، میرا اندازہ یہ ہے کہ پرانی روایت کے مطابق آپ کے دفتر میں ہونے والے فیصلوں کو راز میں رکھنے کا چلن ہے، اس لیے غلط خبر یا افواہ کو آسانی کے ساتھ راستہ مل جاتا ہے۔ یوں، اس واقعے کے بعد فیصلہ ہو گیا کہ صدر مملکت جس سمری کی بھی منظوری دیں گے، اس کی خبر ذرائع ابلاغ کو جاری کر دی جائے گی۔ اس کے بعد یہ روایت ایوان صدر میں پختہ ہو گئی۔ اتنے برس گزر جانے کے بعد یہ شاید پہلی بار ہوا ہے کہ قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کی سمری کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع دستیاب نہیں تھی جس پر یہ تاثر عام ہوا کہ ڈاکٹر عارف علوی کا مؤقف وہی ہے جو پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کا ہے یعنی قومی اسمبلی مکمل نہیں، اس لیے اجلاس کیسے بلایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایوان صدر سے وزیراعظم ہاؤس کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی اس سے بھی قیاس آرائیوں کو راستہ ملا اور یہ خبریں عام ہوئیں کہ ڈاکٹر عارف علوی نے سمری مسترد کر دی ہے۔ حساس قومی امور کے بارے میں اس رویے کو نرم سے نرم الفاظ میں غیر ذمے دارانہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی کے اس منصب پر فائز ہونے کے بعد یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ اولاً تحریک عدم اعتماد کے موقع پر ایوان صدر نے عملاً ڈاکخانے کا کردار ادا کیا۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی طرف سے غیر آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد مسترد کر دینے کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے اسمبلی کی تحلیل کی سمری ایوان صدر کو موصول ہوئی تو اس نے آئینی پوزیشن پر غور کیے بغیر عمران خان کی خواہش کے مطابق سمری منظور کر کے بحران پیدا کر دیا۔ اس مرحلے پر کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد ریاست کون چلا رہا ہے؟ اسبملی کی تحلیل کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومت بھی نہیں رہی۔ اس وقت اگر حکومت نہیں تھی تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریاست کا نظام کس کے ہاتھ میں ہے؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ یہی سبب رہا ہوگا کہ اس وقت عدلیہ نے حرکت میں آ کر ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر آئینی خلا کا خاتمہ کیا۔
ڈاکٹر عارف علوی کے زیر تصرف ایوان صدر نے آئندہ 2 بحران میاں شہباز شریف کے بطور وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے حلف کے موقع پر پیدا کیے۔ ان بحرانوں کے موقع پر بھی مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوئی، کیونکہ ڈاکٹر عارف علوی سارا دن اپنی معمول کی سرگرمیوں میں مصروف رہے لیکن آخری وقت پر یعنی حلف کے دونوں مواقع پر وہ دستیاب نہ ہوئے اور بتایا گیا کہ وہ علیل ہو گئے ہیں لہٰذا ان کے یوں دونوں بار ’علیل‘ ہو جانے پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بروئے کار آئے اور انہوں نے وزیراعظم اور کابینہ سے حلف لے کر بحران کا خاتمہ کیا۔
اگر صدر اور وزیراعظم کے درمیان سیاسی اختلاف ہو جیسے ڈاکٹر عارف علوی اور میاں شہباز شریف کے درمیان تھا، ایسی صورت میں کیا ہونا چاہیے؟ عالمی جمہوری تاریخ سے اس کی بہت سی مثالیں میسر آ سکتی ہیں اور خود پاکستان سے بھی لیکن زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ماضی قریب میں صدر ممنون حسین کی مثال موجود ہے جنہوں نے اپنے بدترین مخالف عمران خان سے بھی حلف لیا اور خود ڈاکٹر عارف علوی کے حلف کے موقع پر بھی تقریب میں شریک ہوئے۔
2018 کے انتخابات کے نتیجے میں عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے تو اولاً ذرائع ابلاغ میں اور پھر مسلم لیگ ن کے اندر یہ خیال پیدا ہوا کہ ان کے وہ لوگ جو آئینی عہدوں پر موجود ہیں، مستعفی ہو جائیں گے تاکہ مخالف جماعت کے عہدیداروں سے انہیں حلف نہ لینا پڑے۔ یہ تجویز سب سے پہلے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کی طرف سے سامنے آئی۔ اس کے بعد گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا اور گورنر سندھ محمد زبیر نے ایوان صدر میں صدر ممنون حسین سے ملاقات میں یہ تجویز پیش کی لیکن شرکا کے درمیان اس معاملے پر کوئی اتفاق نہ ہو سکا لیکن اس کے باوجود ایوان صدر پر دباؤ بڑھتا گیا چنانچہ مشاہد اللہ خان مرحوم کے ذریعے میاں نواز شریف سے رابطہ کیا گیا جو ان دنوں اڈیالہ جیل میں بند تھے۔ مشاہد اللہ خان کے مطابق میاں صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں تردید کی کہ وہ چاہتے ہیں کہ ممنون صاحب مستعفی ہوں یا عمران خان سے حلف نہ لیں۔ محمد زبیر بھی تصدیق کرتے ہیں کہ عمران خان سے حلف نہ لینے کی کوئی تجویز کہیں زیر غور تھی۔
اب تک دستیاب اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی نے میاں شہباز شریف سے حلف لینے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ ویسے تو یہ اطلاع حیران کن ہے لیکن اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ کسی کرشمے سے کم نہ ہو گا۔