خاتون پولیس آفیسر اے ایس پی گلبرگ شہر بانو نقوی نے کہا ہے کہ سعوی عرب آنے کی دعوت دنیا میں سب سے بڑی دعوت ہے۔ اس سے بڑا اعزاز ہوہی نہیں سکتا۔ سعودی کراؤن پرنس کے ویژن میں خواتین کو بااختیار بنانا شامل ہے۔ اس کے لیے انہوں نے مثال قائم کی اور خواتین کو شوریٰ میں شامل کرنے کے ساتھ سفیر بھی بنایا۔ یہ اقدامات قابل تعریف ہیں۔
مکہ میں پہلی دعا؟
وی نیوز سے خصوصی انٹرویو کے دوران مکہ پہنچ کر پہلی دعا کے بارے میں پوچھنے پر اے ایس پی گلبرگ شہر بانو نقوی کا کہنا تھا کہ وہ دعا کریں گی کہ خدا ہر انسان کو تحقیق اور شعور کا موقع دے، زندگی کے ہر عمل سے پہلے وہ تحقیق کرلے کہ وہ جو کام کرنے جارہا ہے اس میں صداقت کتنی ہے اور اس میں اتنا شعور ہو کہ وہ کام ٹھیک کرے۔
اچھرہ واقعہ سے متعلق بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اس وقت آپ کے ذہن میں کوئی خیال نہیں ہوتا، ایک آفیسر ہونے کے ناطے کچھ اہم چیزیں آپ کے ذہن میں ہوتی ہیں، امن و امان کی صورتحال خراب نہیں ہونے دینی، ہجوم کو منتشر کرنا ہے، املاک کو نقصان نہیں پہنچنے دینا، جس پر الزام ہے اسکی زندگی اور عزت کی حفاظت کو بھی یقینی بنانا ہے۔ اس کے علاوہ آپکے ذہن میں کچھ نہیں ہوتا۔
ون فائیو کی اتنی کالز چلتی ہیں کہ آدھا برین آپکا آٹو پر لگا ہوتا ہے
شہربانو نقوی نے کہاکہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ چیزوں کو ایک ماہر سرجن کی طرح دیکھنے لگتے ہیں جو روز بہت سے آپریشنز کو دیکھتا ہے ،کیونکہ آپ 24 گھنٹے کام کررہے ہوتے ہیں۔ ون فائیو کی اتنی کالز مختلف جرائم سے متعلق چلتی ہیں کہ آدھا دماغ آپ کا آٹو پر لگا ہوتا ہے کہ یہ چیزیں میں نے کرنی ہیں۔ جو آدھا ذہن ہوتا ہے بس اس میں ہوتا ہے کہ ہمیں ان چیزوں کرنے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں
آئیڈیا نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے
واقعہ کے بعد خاندان کے افراد کے ردعمل کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب میں گھر سے نکلی تو میں نے بتایا کہ ون فائیو کی کال پر جانا ہے، والدہ نے کہا چائے پی کے جانا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ واپس گھر آئی تو سوائے بہن کے کوئی نہیں تھا، جسے اتنا آئیڈیا نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے اور نہ ہی مجھے سمجھ آ رہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ اس کے بعد پی ایس ایل کا میچ تھا تو وہ جو چائے کا کپ میں نے صبح پینا تھا وہ میں نے شام بجے 5-6 بجے کے قریب پیا۔
بچی کی بے بسی دیکھی نہیں گئی
شہربانو نقوی کہتی ہیں کہ وہ آدھا گھنٹہ گھر بیٹھیں اور پھر اُٹھ کر پی ایس ایل کی ڈیوٹی پر چلی گئیں۔ ڈیوٹی کے دوران اندازہ ہوا کہ کیا ہوا ہے۔ جب میرے کورس کمانڈر نے کال کی۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ صورتحال ہے۔ جب والدہ اور والد نے ویڈیو دیکھی توانہوں نے کہا کہ ہم سے بچی کی بے بسی دیکھی نہیں گئی۔ بچی ٹھیک ہے؟۔ میں بتایا کہ جی ٹھیک ہے۔ تو کہنے لگے چلو ٹھیک ہے۔
اگر کچھ ہوجاتا تو ؟
ان سے جب سوال کیا کہ والدین نے اپنی بیٹی کا نہیں پوچھا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اپنی بیٹی کا نہیں پوچھا والد کا کہنا تھا کہ مجھے ڈر تھا کہ جب تم بچی کو لے کر باہر آرہی ہو تو وہ تم سے چھین نہ لیں اور اس وقت کچھ ہو نہ جائے۔ اگر ہو بھی جاتا تو وہ لائن آف ڈیوٹی میں ہونا تھا۔
آرمی چیف سے ملاقات
چیف آف آرمی اسٹاف سے ملاقات کے حوالے سے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، اللہ بڑا مہربان ہے۔ یہ ملاقات بہت مثبت رہی۔ پولیس میں رہ کر جنت کمائی جا سکتی ہے۔
بچپن میں پولیس میں جانے کے خیال کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بچپن میں ہم چور سپاہی تو ضرور کھیلتے تھے، لیکن اس میں ہم زیادہ تر چور ہی ہوتے تھے۔ وقت کے ساتھ جوڈیشری میں جانے کا شوق ضرور تھا۔ پھر پڑھنے کے بعد اندازہ یہی ہوا کہ پولیس سروس آف پاکستان میں جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسی نوکری ہے جس میں آپ جنت کمانا چاہیں تو کما سکتے ہیں۔
سراغ رساں کتے
ماضی قریب میں ان کے سراغ رساں کتوں کی فلاح کے لیے اقدامات کے حوالے سے پوچھنے پر ان کا کہنا تھا کہ پہلے پی ایس ایل کے دوران اسپیشل برانچ کے سراغ رساں کتے آئے تو ہم نے دیکھا کہ ان کی حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ میں نے کہا کہ انہیں برش کرلیں تو مجھے آگے سے جواب ملا کہ ’میڈم چھڈو انہاں نوں کی برش کرنا انہاں نے تے 2 مہنیاں بعد ریٹائر ہوجانا‘۔ میں نے کہا کہ اگر ریٹائر ہوجانا ہے تو پھر تو اور اچھی طرح برش کرو۔ باقی زندگی آرام سکون سے گزرے۔
میری اس بات پر تو اسٹاف نے کہا کہ میڈم ہم انہیں ریٹائر ایسے کرتے ہیں کہ انہیں ٹیکا لگا کے مار دیتے ہیں۔ یہ سن کر میں نے سر سے ریکویسٹ کر کے اس عمل پر پابندی لگوائی۔
بےزبانوں کا تحفظ
اب ان سراغ رساں کتوں کو میڈلز ملتے ہیں، سرٹیفکیٹس ہوتے ہیں، ان کی ریٹائرمنٹ پر تقریبات ہوتی ہیں۔ وہ پیار کرنے والے خاندان جن کے ہم انٹرویوز کرتے ہیں اور اپروکرتے ہیں ان کو ہم یہ کتے دیتے ہیں۔ پھر یہ سلسلہ چلتا ہوا آ گے پولیس اینیمل ریسکیو سینٹر کی شکل اختیار کرگیا۔ اب ہمارا پی آر سی لاہور میں بھی ہے، پنڈی میں بھی ہے، گوجرانوالہ میں بھی ہے۔ جس کی ہیلپ لائن ہے، ایمبولینس ہے، سوفٹ ویئر ہے۔ 24 گھنٹے ڈاکٹرز دستیاب ہوتے ہیں۔ سول سوسائٹی کو ہم نے آن بورڈ لیا ہوا ہے۔ تو اس طرح ہم بے زبانوں کا تحفظ کرتے ہیں۔
اچھرہ بازارمیں کیا واقعہ پیش آیا؟
پاکستان کے شہر لاہور میں ایک خاتون کو اچھرہ بازار میں دوران شاپنگ ان کے لباس کے ڈیزائن کی وجہ سے مشتعل ہجوم کی جانب سے توہین مذہب کے الزام کا نشانہ بنایا گیا۔ ہجوم نے الزام عائد کیا تھا کہ خاتون کے لباس کے پرنٹ پر قرآنی آیات لکھی گئی ہیں۔ جس پر مشتعل ہجوم نے خاتون اور ان کے شوہر کر ہراساں کرنا شروع کردیا۔
اس صورتحال میں خاتون پولیس آفیسر اے ایس پی گلبرگ شہر بانو نقوی کی جانب سے بروقت اور مؤثر کارروائی نے صورتحال کو نہ صرف بگڑنے سے بچایا بلکہ خاتون کو بھی مشتعل ہجوم سے بحفاظت نکالنا ممکن بنایا۔ بعد میں تھانے پہنچنے پر علما کرام نے تصدیق کی کہ خاتون کی قمیض پر موجود پرنٹ پر کوئی قرآنی آیت نہیں لکھی ہوئی۔