پچھلے سال 28 فروی کو میں ایک بے رونق سے کیفے میں اپنے ساتھ بیٹھے لوگوں کی بے معنی گفتگو اور بے مزہ اور ٹھنڈی کافی کے گھونٹ پی رہی تھی کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی۔ کال عمار مسعود صاحب کی تھی۔
قدرت کی جانب سے راہ فرار کا موقع میسر آیا تو فوراً ’ ایکسکیوز می” کہہ کر کیفے کے ٹیرس پر جاکر کال اٹھائی۔
عمار صاحب نے ہمیشہ کی طرح بڑے پُر تپاک انداز میں سلام کیا۔
صنوبر ’وی نیوز‘کل لانچ ہو رہا ہے اور ہمارے لیے پہلا کالم آپ لکھیں گی۔ موضوع ’ پاکستانی سیاست میں خواتین کا کردار‘ ہے۔ عمار صاحب! نے فیصلہ بھی صادر کر دیا۔
عمار صاحب! ابھی تو میں کہیں باہر ہوں واپس آنے میں دیر ہو جائے گی ۔ دوسرا ’سوانگ گروپ‘ وومن ڈے پر ایک ڈراما تیار کر رہا ہے اور اس کی شام کو ڈریس اپ ریہرسل بھی ہے ۔ اتنی جلدی ایسے موضوع پر لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، میں نے تمہید باندھی اور انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
یہ آپ کے بایاں ہاتھ کا کھیل ہے بس آپ لکھنا شروع کریں اور رات اسامہ خواجہ کو بھیج دیں۔ عمار صاحب! بضد رہے۔
جناب ایسے کالمز ایک تفصیلی ریسرچ مانگتے ہیں، ذرا بھی اونچ نیچ ہوئی تو ساری سیاسی جماعتوں کی توپ کا رخ میری جانب ہی ہوگا۔ میں نے انہیں سچائی سے آگاہ کیا۔
آپ لکھ لیں گی بس اب ریسرچ کریں وقت ضائع نہ کریں۔ یہ کہہ کر عمار صاحب نے فون بند کردیا۔
میں شش و پنج میں تھی کیونکہ میرا کالم ہر اتوار شائع کرنے کی بات ہوئی تھی اور یہ افتاد اچانک سے آپڑی تھی۔
خیر سوچا کہ یہاں بیٹھ کر فضول باتوں پر جمائیاں لینے سے ہزار درجے بہتر ہے کہ خواتین کی سیاسی جدوجہد بارے کچھ مواد اکٹھا کیا جائے۔
خیر رات 11 یا 12 بجے اسامہ خواجہ کو کالم لکھ کر بھیج دیا۔ بس یہاں سے میرا ’وی نیوز‘ کے ساتھ ایک تعلق بن گیا۔ ’وی نیوز‘ کے لانچ ہونے سے پہلے عمار صاحب! نے ایک دن آفس آنے کی دعوت دی تاکہ تمام ساتھیوں سے تعارف ہوجائے۔
آفس میں داخل ہوتے ہی ایک اپنائیت کا احساس ہوا۔ اگرچہ میں یہاں سوائے عمار صاحب کے کسی اور سے شناسا بھی نہ تھی لیکن ’وی نیوز‘ میں کام کرنے والے تمام ساتھیوں سے مل کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ پہلی ملاقات ہے۔
پروڈکشن، کیمرہ اور ایڈیٹنگ سے اچھی خاصی دوستی رہی تھی لیکن اس شعبے سے رخ موڑے ہوئے 10 سال بیت چکے تھے۔ ’وی نیوز‘ کے تقریباً 30 ساتھیوں سے تعارف ہونے کے بعد عمار صاحب نے مجھے اسٹوڈیو میں ایک ٹیزر ریکارڈ کرانے کے لیے کہا۔
کیمرہ کے سامنے؟ میں بوکھلا گئی۔
جی بالکل کیونکہ آپ ’وی نیوز‘ کے لیے وی لاگ بھی کیا کریں گی۔ عمار صاحب نے چیف ایڈیٹر ہونے کا مکمل ثبوت پیش کیا۔
خیر جیسے تیسے کئی ری ٹیک کے بعد ٹیزر ریکارڈ کروایا کہ کیمرہ کے سامنے میری ہمیشہ ہوائیاں ہی اڑ جایا کرتی تھیں۔
لیکن کیمرہ پر موجود ساتھی کی حوصلہ افزائی نے آنے والے وقت کو آسان کر دیا تھا اور پھر میں نے بھی ٹھان لیا کہ اب کیمرہ فیس کرنا ہے تو دوبارہ اس سے دوستی کرنی پڑے گی۔
بس پھر چل پڑی اپنی ریل وی نیوز کی پٹری پر ۔
’وی نیوز ‘کے دفتر کا ماحول خوب دوستانہ ہے اور جو چیز مجھے سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ خواتین عملے کے ساتھ سب کا عزت و احترام کا رشتہ ہے۔
وی نیوز کے دفتر میں جیسے ہی داخل ہوں تو سامنے استقبالیہ پر ہنستا مسکراتا چہرہ نظر آتا ہے۔
وی نیوز کے دفتر جائیں اور آپ کو عمار صاحب اور وسیم عباسی صاحب! کے قہقہے گونجتے سنائی نہ دیں، ایسا تو ممکن نہیں۔ عمار صاحب کا تمام عملے کے ساتھ ایک چیف ایڈیٹر نہیں بلکہ دوست اور شفقت کا رشتہ ہے۔
اسامہ خواجہ میرے آفس پہچنے سے پہلے ہی کالم کا پرنٹ آؤٹ نکال کر تیار رکھتے ہیں۔
کیمرہ مین مزمل صاحب سے شروع میں کم لائٹ رکھنے پر بحث ایک معمول کی بات ہوا کرتی تھی جو بتدریج کم ہوتے ہوتے اب ختم ہو گئی ہے۔ کیونکہ اب ہمارا لائٹ پر سمجھوتا ہو گیا ہے۔
وی نیوز میں کھانے پینے کا بھی بڑا چلن ہے۔ اگر کھانا نہ بھی ہو تو گفتگو میں کم از کم من و سلویٰ کا ذکر لازمی ہوتا ہے۔
عمار صاحب سے چونکہ دوستی کا رشتہ عرصہ پرانا ہے سو وہ اکثر وی نیوز کے ساتھیوں کے سامنے میرے بنائے ہوئے کھانوں کی کھلے دل سے تعریفیں کرتے تھے خاص کر نہاری کی۔
آخر ایک دن میں نے سارے وی نیوز کے ساتھیوں کے لیے بنائی نہاری اور لے گئی آفس۔۔۔۔
اصل میں یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی ایک دفتر کے ماحول کو دوستانہ بنائے رکھتی ہیں۔۔
آج پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ عمار صاحب کا میرے لیے ’وی لاگ ‘کرنے کا فیصلہ کتنا درست تھا۔کیونکہ کالم لکھنا اور کالم کیمرے کے سامنے پڑھنے میں بڑا فرق ہے۔
اپنے شروع کے اور آج کے وی لاگز میں زمین آسمان کا فرق مجھے واضح نظر آتا ہے، الفاظ کے اتار چڑھاؤ کو نکھارنے میں عمار صاحب نے بہت رہنمائی کی۔
نصرت جاوید صاحب کے نام سے کون واقف نہیں۔ آفس میں ان سے اکثر ملاقات رہتی ہے۔ انہوں نے مجھے کیمرہ فیس کرنے کے مفید مشورے بڑے دوستانہ انداز میں دیے جس کے لیے میں ان کی ہمیشہ مشکور رہوں گی۔
اگر ارادے مضبوط اور اچھے دوست میسر ہوں تو دنیا کا کوئی کام مشکل محسوس نہیں ہوتا۔
بس اچھے دوستوں کی صحبت میں رہنا شرط ہے۔ ورنہ آپ کی زندگی بدمزہ، سطحی گفتگو اور بے معنی دوستیوں میں ضائع ہو کر رہ جاتی ہے۔
اور ہاں ’وی نیوز‘ کے آفس کی ’کافی‘ کا تو کوئی نعم البدل ہی نہیں۔ جب بھی ’وی نیوز‘ آئیں تو ہمارے آفس بوائے کے ہاتھ کی کافی پینا مت بھولیے گا اس میں ذائقہ اور خلوص دونوں ملیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔