سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت پر کہا تھا کہ ریفرنس کی سماعت پیر 4 مارچ کو مکمل کر لی جائے گی۔
مزید پڑھیں
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے۔ کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔
رضا ربانی کے دلائل
صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے وکیل رضا ربانی نے اپنے دلائل کا آغاز کیا اور عدالت کو بتایا کہ جب بھٹو کے خلاف کیس چلایا گیا، اس وقت لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کر رہے تھی، اس وقت ملک میں مارشل لا نافذ تھا، بنیادی انسانی حقوق معطل تھے، استغاثہ فوجی آمر جنرل ضیا تھے، اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نئے الیکشن کے لیے معاملات طے ہو چکے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا، جس پر رضا ربانی نے بتایا کہ معاہدے پر دستخط ہونے باقی تھے، لیکن پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا، 24 جولائی کو فیڈرل سیکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) کے انسپکٹرز کو گرفتار کیا گیا، 25 اور 26 جولائی کو ان کے اقبال جرم کے بیانات آ گئے، جسٹس اسلم ریاض حسین بیک وقت سپریم کورٹ کے جج اور پنجاب کے قائم مقام گورنر تھے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مارشل لا آرڈر کے تحت تو کچھ بھی ہو سکتا تھا، مارشل دور میں تو گورنر ٹرائل بھی چلا سکتے تھے۔ رضا ربانی بولے، وہ تو بادشاہ تھے مارشل لا میں جو مرضی کریں۔
’عدالتیں آئین کے تحت کام نہیں کر رہی تھیں‘
عدالتی معاون رضا ربانی نے دلائل دیے کہ بیگم نصرت بھٹو نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریاں سپریم کورٹ میں چیلنج کیں، جسٹس یعقوب اس وقت چیف جسٹس تھے، جسٹس یعقوب نے جیسے ہی درخواست سماعت کے لیے منظور کی، انھیں بطور چیف جسٹس پاکستان ہٹا دیا گیا اور جسٹس انوار الحق کو چیف جسٹس پاکستان بنا دیا گیا۔
رضا ربانی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مارشل لا ریگولیشن کے تحت ججوں نے حلف لے رکھا تھا، ان کے حلف میں سے آئین کا لفظ حذف کر دیا گیا تھا، اس وقت ججز آئین پاکستان کے تحت ججز نہیں تھے، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بھی اس وقت آئین کے تحت کام نہیں کر رہی تھیں، بھٹو کیس میں فئیر ٹرائل کے پراسیس پر عمل نہیں کیا گیا، جنرل ضیا کا تعصب بھی موجود تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم آج بھٹو ریفرنس پر کارروائی مکمل کریں گے۔
احمد رضا قصوری کے دلائل
رضا ربانی کے دلائل مکمل ہوئے تو احمد خان قصوری روسٹرم پر آگٸے اور دلائل شروع کیے۔ احمد خان قصوری نے اپنے دلائل میں کہا کہ بھٹو کیس میں پرائیویٹ کمپلینٹ 1977 میں دائر کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قتل 1974 کا تھا، آپ نے اتنا وقت کیوں لیا، جس پر احمد رضا قصوری بولے کہ پہلے کیس بند ہو گیا تھا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیس بھی کافی پہلے بند ہوا، آپ تبھی کیوں نہ گئے کہ ناانصافی ہو گئی، آپ نے 3 سال کیوں لیے تھے، اس کا جواب کیا ہو گا۔
احمد رضا قصوری نے دلائل دیے کہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے، صورتحال ہی ایسی تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 1974 میں آپ کے اور کتنے بہن بھائی موجود تھے، جس پر احمد رضا قصوری نے بتایا کہ ہم 6 بھائی تھے، ہماری کوئی بہن نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی ایک اچھا، اثر رسوخ ، تعلقات اور وسائل والا خاندان تھا، آپ جیسا با اثر خاندان کیسے درخواست جمع کرانے میں اثر لیتا رہا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی ریمارکس دیے کہ آپ نے انکوائری بند ہونے کا آرڈر بھی چیلنج نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے اٹارنی جنرل سے مسعود محمود کے بارے میں تفصیلات مانگی تھیں، کچھ پتہ چلا مسعود محمود کہاں ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے عدالت کو بتایا کہ مسعود محمود کے بچوں نے بیرون ملک جانے کی اجازت کے لیے خط لکھا تھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مسعود محمود کے بچوں کا خط عدالت میں پیش کیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ خط تو 1977 میں اس وقت کے وزیراعظم کو لکھا گیا ہے۔ عامر رحمٰن نے عدالت کو بتایا کہ مزید ریکارڈ کے لیے 3 وزارتیں کام کررہی ہے، ایف آٸی اے اور نادرا سے مسعود محمود بارے ریکارڈ مانگا ہے۔ چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ جب بھی تفصیلات ملیں، عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
’میں جانتا تھا بھٹو مجھے قتل کروا دے گا‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے احمد رضا قصوری سے سوال کیا کہ جس شخص کو آپ والد کا قاتل سمجھتے تھے اس سے ملنا تو نہیں چاہتے ہوں گے، آپ دوبارہ پارٹی میں آئے اور ٹکٹ کے لیے اپلائی کیا؟
احمد رضا قصوری نے عدالت کو بتایا کہ میں جانتا تھا مجھے مارک کیا ہوا ہے، پی این اے کے وقت بھی مجھ سے رابطہ ہوتا رہا، مجھ سے وہ بوتل لانے کا کہا جاتا جس میں والد کا خون محفوظ کیا تھا، میں ایک اچھا پبلک اسپیکر تھا اس لئے مجھے مہم میں شمولیت کا کہا گیا، میں جانتا تھا کہ بھٹو مجھے قتل کروا دے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی بات میں ایک اور تضاد ہے، جب آپ کو پتہ تھا کہ بھٹو اتنا طاقتور ہے تو پھر آپ ان ک خلاف کیسے بول سکتے تھے؟
احمد رضا قصوری نے جواب دیا کہ میں پیپلز پارٹی میں ایک انتہائی طاقتور شخص تھا، صرف 5 لوگوں کو نشان پیپلز پارٹی ملا، ان میں سے ایک میں تھا، ذوالفقار علی بھٹو میرے علاوہ ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوتے تھے۔
’بھٹو سے اختلافات 4 بیانات پر ہوئے‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر یہ محبت نفرت میں کیسے بدل گئی۔ احمد رضا قصوری بولے کہ میں صرف اس لیے بتا رہا ہوں کہ ایسا نہیں کہ مجھے کچھ ملا نہیں تھا تو خلاف ہو گیا، ہمارے اختلافات ذوالفقار علی بھٹو کے 4 بیانات پر شروع ہوئے۔
احمد رضا قصوری نے بتایا کہ پہلا بیان 14 فروری 1971 کا تھا کہ ہم آنے والے اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے، دوسرا بیان 28 فروری 1971 کو اقبال پارک لاہور میں دیا گیا جس میں بھٹو نے کہا تھا کہ جو ڈھاکہ گیا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، تیسرا بیان 14 مارچ 1971 میں نشتر پارک کراچی کا تھا، وہاں بھٹو نے کہا کہ آپ مشرقی، میں مغربی پاکستان کی اکثریت رکھتا ہوں، اس بیان پر سرخیاں لگی تھیں ادھر تم ادھر ہم۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ 1971 کی بات ہے اس وقت تو بھٹو وزیر اعظم نہیں تھے، قتل تو 1974 میں ہوا ہے۔ احمد رضا قصوری نے دلائل دیے کہ کوئی 15، 16 کے قریب حملے ہوئے تھے، مجھ پر پہلے 10 سے زیادہ ایف آئی آرز تھیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ان ایف آئی آرز میں تو آپ نے بھٹو کو نامزد نہیں کیا۔ احمد رضا قصوری نے وضاحت کی کہ پہلی ایف آئی آرز میں بھٹو کو میں نے نامزد نہیں کیا تھا، جب میرے والد کا قتل ہو گیا تو میں نے کہا بس بہت ہو گیا۔
احمد رضا قصوری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو کا چوتھا بیان جو وجہ اختلاف بنا وہ ڈھاکہ ملٹری آپریشن شروع ہونے پر تھا، کراچی ائیرپورٹ پر بھٹو نے آپریشن پر کہا شکر ہے پاکستان محفوظ ہو گیا ہے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ ایک لیڈر کو اسی وقت کہنا چاہیے تھا کہ یہ پاکستان کی تباہی کا آغاز ہے۔
’فیصلہ لکھنے والے جج متعصب نہیں تھے‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قصوری صاحب آپ قتل کیس پر فوکس کریں، جو صدر پاکستان نے ریفرنس میں سوال پوچھا اس پر رہیں۔
احمد رضا قصوری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مغربی پاکستان سے ضمیر کی آواز پر ڈھاکہ جانے والا میں واحد شخص تھا، وہ سیشن ہوجاتا آج ہنستا بستا پاکستان ہوتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ججوں کے تعصب پر جو باقی لوگوں نے بات کی اس پر آپ کیا کہیں گے۔ احمد رضا قصوری بولے کہ تعصب کا الزام صرف مولوی مشتاق پر تھا، انہوں نے تو فیصلہ تحریر نہیں کیا تھا، فیصلہ تو آفتاب حسین نے لکھا، وہ متعصب نہیں تھے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں اپیل کے فیصلے سے متعلق ایک جج کا انٹرویو موجود ہے، جس پر احمد رضا قصوری بولے کہ وہ فیصلہ چیف جسٹس انوار الحق نے لکھا، فرض کریں وہ ضیاالحق کی ہدایات پر ایسا کر رہے تھے، پھر تو وہ ضیا کو بہت عزیز ہوتے، تاریخ مگر یہ بتاتی ہے کہ جب پی سی او آیا تو انوار الحق نے حلف لینے سے انکار کیا، جو شخص پی سی او کا حلف نہیں لے رہا، وہ کسی معصوم کی جان لے گا؟
’ٹارگٹ آپ تھے، ایسا وقت کیوں چنا گیا جب اور لوگ بھی گاڑی میں موجود تھے‘
جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو سے متعلق دلائل دیتے ہوئے احمد رضا قصوری نے کہا کہ یہ جو شخص افتخار ہے اسے عرف عام میں افتخار فتنہ کہتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ خدانخواستہ افتخار صاحب کو کچھ ہوگیا تو قصور وار پھر آپ ٹھہریں گے؟ احمد رضا قصوری نے جواباً کہا کہ میں کیسے قصور وار ٹھہرا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’آپ کی لاجک کے مطابق، جو آپ نے بات کی آپ پر آئے گی۔‘
احمد رضا قصوری بولے کہ میں نے کہا وہ عرف عام میں اس نام سے جانے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ قتل کا ٹارگٹ آپ تھے، تو ایسا وقت کیوں چنا گیا جب اور لوگ بھی گاڑی میں تھے، کیا یہ ناقص پلاننگ اور سازش کا نتیجہ تھا؟
احمد رضا قصوری بولے کہ انہیں نہیں پتہ تھا کہ گاڑی میں اور بھی لوگ تھے۔