چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس پر محفوظ رائے دے دی۔ صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے دی ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔
ذوالفقار بھٹو کے فیصلے کے بعد صارفین کی جانب سے نظام عدل کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، صارفین کا کہنا ہے کہ اس معاملے تک پہنچتے پہنچتے کہ بھٹو کو فیئر ٹرائل نہیں ملا سپریم کورٹ کو 50سال لگ گئے تو کسی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ تسلیم کرنا عدالتی غلطی کو تسلیم کرنا ہے۔
اینکر جمیل فاروقی نے کہا کہ اللہ ہمیں اتنی عقل دے کہ ہم 45 سال بعد اپنے کئے فیصلوں پر شرمسار ہونے کی بجائے غلط کرتے وقت یا غلطی کے فوراً بعد شرمسار ہونا سیکھیں اور بھٹو کیس سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔
اللہ ہمیں اتنی عقل دے کہ ہم 45 سال بعد اپنے کئے پر شرمسار ہونے کی بجائے غلط کرتے وقت یا غلطی کے فوراً بعد شرمسار ہونا سیکھیں ، بھٹو کیس سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے
— Jameel Farooqui (@FarooquiJameel) March 6, 2024
صحافی فخر درانی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ان کا ایک جرات مندانہ فیصلہ ہے، بھٹو ٹرائل کیس ذوالفقارعلی بھٹو کو فئیر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔ سپریم کورٹ کیطرف سے یہ تسلیم کرنا گویا عدالتی غلطی کو تسلیم کرنا ہے اور ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ عدالت اپنی غلطی تسلیم کرے۔ اس ریفرنس کے دائر ہونے کے بعد 6 چیف جسٹسز آئے اور چلے گئے لیکن کسی نے اس ریفرینس کو ٹیک اپ نہیں کیا۔ یہ جرات صرف قاضی فائز عیسی ہی دکھا سکتے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کا ایک جرات مندا نہ فیصلہ۔بھٹو ٹرائل کیس ذوالفقار علی بھٹو کو فئیر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔ سپریم کورٹ کیطرف سے یہ تسلیم کرنا گویا عدالتی غلطی کو تسلیم کرنا ہے اور ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ عدالت اپنی غلطی تسلیم کرے۔ اس ریفرینس کے دائر ہونے کے…
— Fakhar Durrani (@FrehmanD) March 6, 2024
ایک صارف نے لکھا کہ 45 سال پہلے فوت ہونے والے ذوالفقارعلی بھٹو کو انصاف مل گیا مگر ہر پل جینے والی عوام کو انصاف نہیں ملے گا، کیا خُوبصورت نظام ہے اس مُلک کا۔
45 سال پہلے فوت ہونے والے بھُٹّو کو انصاف مل گیا مگر ہر پل جینے والی عوام کو انصاف نہیں ملیگا۔۔۔۔۔۔۔
کیا خُوبصورت نظام ہے اس مُلک کا
— Mir Mohammad Alikhan (@MirMAKOfficial) March 6, 2024
صحافی ثاقب بشیر نے کہا ہے بھٹو کیس میں شفاف ٹرائل نہ ہونے کا سپریم کورٹ کا 45 سال بعد تسلیم کرنا بہت بڑی خبر اس لحاظ سے ہے کہ جیسے بھٹو کا عدالتی قتل ہونے کو سپریم کورٹ نے تسلیم کر لیا اور اس کے ہائیکورٹ میں ٹرائل کرنے والے ججز اور سپریم کورٹ اپیل سننے والے ججز آج عدالت عظمی نے مجرم ڈیکلیئر کیے ہیں۔
بھٹو کیس میں شفاف ٹرائل نا ہونے کا سپریم کورٹ کا 45 سال بعد تسلیم کرنا بہت بڑی خبر اس لحاظ سے ہے کہ جیسے بھٹو کا عدالتی قتل ہونے کو سپریم کورٹ نے تسلیم کر لیا اور اس کے ہائیکورٹ ٹرائل کرنے والے ججز اور سپریم کورٹ اپیل سننے والے ججز آج عدالت عظمی نے مجرم ڈیکلیئر کئے ہیں
— Saqib Bashir (@saqibbashir156) March 6, 2024
احتشام علی عباسی لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کے فیصلے میں قانون اور بنیادی حقوق کے تقاضے پورے نہیں ہوئے، سپریم کورٹ کا 45 سال بعد حکم نامہ جناب 45 سال چھوڑیں کیا موجودہ کیسز میں عمران خان کو فیئر ٹرائل مل رہا؟
ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کے فیصلہ مین قانون اور بنیادی حقوق کے تقاضے پورے نہیں ہوئے، سپریم کورٹ کا 45 سال بعد حکم نامہ
جناب 45 سال چھوڑیں کیا موجودہ کیسز میں عمران خان کو فیئر ٹرائل مل رہا؟؟— Ehtesham Ali Abbasi (@ehtashamabbasi) March 6, 2024
صحافی حامد میر نے کہا کہ ثابت ہوا کہ زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے جو بات عام پاکستانیوں کو 44 سال پہلے پتہ تھی کہ بھٹو شہید کے ساتھ ناانصافی ہوئی اسے تسلیم کرنے میں اعلیٰ عدالت کو 44 سال لگ گئے آج کی عدلیہ کے کئی فیصلوں کے بارے میں بھی عوام کی وہی رائے ہے جو بھٹو کیس میں تھی۔ بس! عدلیہ اپنی غلطی اس وقت تسلیم کرے گی جب چڑیاں کھیت چگ جائیں گی۔
ثابت ہوا کہ زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے جو بات عام پاکستانیوں کو 44 سال پہلے پتہ تھی کہ بھٹو شہید کے ساتھ ناانصافی ہوئی اسے تسلیم کرنے میں اعلیٰ عدالت کو 44 سال لگ گئے آج کی عدلیہ کے کئی فیصلوں کے بارے میں بھی عوام کی وہی رائے ہے جو بھٹو کیس میں تھی بس عدلیہ اپنی غلطی اسوقت تسلیم… https://t.co/uZgvI1cThp
— Hamid Mir حامد میر (@HamidMirPAK) March 6, 2024
یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔
تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔