چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اسلام سے بڑھ کر کسی مذہب نے خواتین کو حقوق نہیں دے رکھے، ہم اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں، جہاں خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنا دینی فریضہ ہے۔
مزید پڑھیں
جمعہ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عدلیہ میں خواتین کے کردار سے متعلق منقعدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اقتدار اعلیٰ کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ اور دین اسلام نے خواتین کو تمام حقوق دے رکھے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی والدہ حضرت مریم کا ذکر 35 مرتبہ آیا ہے جب کہ بائبل میں تو کئی بار آیا ہے۔ اسلام میں خواتین کو حقوق دے کر یہ واضح کر دیا ہے کہ خواتین سے متعلق آئین کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی عورت ہی تھی۔ حضرت خدیجہ جنہوں نے پیارے نبی کو شادی کی پیشکش کی ، وہ ایک بیوہ تھیں، ان کی عمر ہمارے نبی سے کہیں زیادہ تھی۔ وہ 40 سال کی تھیں اور ہمارے نبی 25 سال کے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا وہ پہلی مسلمان خاتون تھیں جنہوں نے ہمارے نبی پر ایمان لایا پھر ان کو دین اسلام پھیلانے میں وہ مدد کی جو ابتدائی ایام میں کوئی نہ کر سکا۔
یہ پہلی مسلمان خاتون حضرت خدیجہ ہی تھیں جنہوں نے اسلام کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کیا ۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ہم خواتین کے حقوق کے بارے میں کیا بات کرتے ہیں اور اس پر عمل کیسے کرتے ہیں؟۔ پاکستان کی عدالتیں اس مسئلے پر بات کر سکتی ہیں۔ ہمارا آئین دراصل یہ نہیں کہتا کہ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ اس کا آغاز اس قول سے ہوتا ہے کہ پوری کائنات کی حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے اور تمام قوانین اسلامی احکامات کے مطابق ہونے چاہییں۔ ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو کیا کیا حقوق دے رکھے ہیں میں کسی دوسرے مذہب سے واقف تو نہیں ہوں تاہم اسلام میں ایمان کے جو ستون ہیں ان کی تکمیل میں عورت ایک بڑا مقام رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ نمازیں پڑھ رہے ہیں، روزہ بھی رکھ رہے ہیں ۔زندگی میں ایک بار حج بھی واجب ہے بشرطیکہ آپ کے پاس وسائل ہوں اور حج کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ آپ ایک عورت کے نقش قدم پر چلتے ہیں حج کی تکمیل تبھی ہوتی ہے جب آپ بالکل وہی کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ حضرت حاجرہ نے ایسا ہی کیا تھا اور یہ اسلام سے پہلے کی بات ہے۔ وہ صفا اور مروہ کے دو ٹیلوں کے درمیان بھاگتی رہیں اور آج یہ ہم سب کے لیے لازم ہے اور یہ ایک سنت بن گئی ۔ ہر شخص جو حج یا عمرہ کرتا ہے اسے ایسا کرنا پڑتا ہے۔
حج ادا کرنے کے لیے جو بھی جاتا ہے وہ وہی کرتا ہے جو اس عظیم عورت نے کیا اور اس نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے پانی تلاش کیا۔ یہ وہ روایت ہے جو قرآن مجید میں مذکور قدیم ترین روایت ہے۔ایسی بے شمار مثالیں ہیں جن کی ہم مرکزی خصوصیت کو نظر انداز کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دین میں عورتوں کی اہمیت ایک حقیقت ہے جس کے بغیر اسلام کو مرکزی خصوصیت کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بھی مثال دی اور کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کو دیکھیں، ان کی زندگی کی تمام تر محسن عورتیں تھیں۔ ایک عورت نے ان کی جان بچائی جو ان کے بڑے دشمن فرعون کی بیوی تھی۔
پھر اسی کی ایک بیٹی سے حضرت موسیٰ نے شادی کی جس نے ان کی مدد کی اور یہ ایک بہت ہی شاندار روایت ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دراصل مردوں کو با اختیار بنانے میں واقعی خواتین کا ہی کردار تھا لیکن فرعون کی زوجہ آسیہ کی دعا کا ذکر بھی قرآن مجید میں آیا ہے۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام ان پر سلام ہو۔ ہماری روایت میں ان کی والدہ مریم کا ذکر قرآن میں 35 بار آیا ہے۔ کیا یہ چیزیں غیر اہم ہیں یا ان میں ہمارے لیے غور و فکر کرنے کا کوئی مطلب بھی ہے؟ ان کا ذکر خواتین میں سب سے اونچا مقام رکھنے والی خواتین میں ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جائے پیدائش مکہ سے بھاگ کر مدینہ میں پناہ لینی پڑی۔
مدینہ پہنچنے سے پہلے ان کے ساتھ ان کے عزیز دوست حضرت ابوبکر صدیق علیہ السلام بھی تھے۔ کفار ان کے تعاقب میں تھے۔ دونوں دوستوں نے غار ثور میں پناہ لی اور سب کو علم ہے کہ غار ثور میں ان کے لیے پانی کون لایا، کھانا کون لایا؟ وہاں کفار کے مظالم کے باوجود حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور ان کے بھائی عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ان کے لیے کھانا لایا کرتے۔
چیف جسٹس نے حجاج بن یوسف کی مثال دی اور کہا کہ جب حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر کو کو پھانسی دے دی اور جب ان کی ماں ان کی لاش لینے گئی تو حجاج بن یوسف طنزیہ انداز میں اس سے کہا، دیکھو میں نے تمہارے بیٹے کی زندگی کو کس طرح تباہ کر دیا ہے۔
وہ بہادر عورت اب اس مرحلے پر بہت بوڑھی تھی لیکن پھر بھی جواب دیا ہاں میں نے دیکھا کہ تم نے کس طرح میرے بیٹے کی دنیا کو تباہ کیا، لیکن اس نے تمہاری آخرت کو ہمیشہ کے لیے تباہ کر دیا ہے۔
چیف جسٹس نے اپنی تقریر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمہ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا حوالہ دیتے ہوئے خواتین کی اہمیت اور حقوق پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کی بہن فاطمہ جناح کی بہادری اور جدوجہد کی بھی مثال دی۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے، ہم خواتین کو شرکت کے مساوی مواقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ میرٹ پر مبنی نظام ہے اور جہاں کہیں بھی ہمیں کمی محسوس ہوتی ہے وہاں ہم اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں پھر اسلام کی طرف جاؤں گا اور عورت کی عزمت اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ اللہ نے والد نہیں والدہ کے قدموں تلے جنت رکھ دی ہے۔ پھر ہمارے نبی سے جب ایک صحابی نے 3 بار پوچھا کہ مجھ پر پہلا حق کس کا ہے تو ہمارے نبی نے تینوں بار ماں کا نام لیا۔
چیف جسٹس نے تحریک آزادی پاکستان کے نامور کرداروں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی والدہ کا بھی ذکر کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ہم نے مغرب کے بدترین معاشرتی حالات کی تقلید کرنا شروع کر دی ہے وہ معاشرتی انحطاط کے بدترین مراحل سے گزرکر باہر آ گئے اور ہم ان کی جگہ چلے گئے۔
چیف جسٹس نے سوات میں لڑکیوں کے ایک اسکول پر حملے پر بھی گفتگو کی، انہوں نے کہا کہ سنگوٹا پبلک اسکول پر گمراہ لوگوں نے حملہ کیا، بمباری کی اور ساتھ ہی وہ اسلام کا دعویٰ بھی کر رہے تھے۔ وہ اسلام کی وکالت کیسے کر سکتے ہیں؟ جو عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تعلیم پر حملے ہو رہے ہیں حالانکہ آئین صنفی مساوات کی ضمانت دیتا ہے۔
تعلیم پر حملے کرنے والے ایسا بموں سے کرتے ہیں، ہم الفاظ سے کرتے ہیں، وہ گولیوں سے کرتے ہیں، ہم قلم سے ایسا کرتے ہیں، وہ بموں سے ایسا کرتے ہیں، ہم شائستہ تعلیم کے ساتھ ایسا کرتے ہیں اور قرآن مجید کی تعلیمات بھی یہی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ان شا اللہ، ہم کامیاب ہوں گے اور ہم سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھیں گے، جس میں یہ بھی شامل ہے، میں خواتین کے بغیر دنیا کا تصور نہیں کر سکتا۔