’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر‘ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اداس کیوں ہوگئے؟

جمعہ 8 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جسٹس سردار طارق مسعود کی سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ پر منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے اپنے خطاب میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سبکدوش جسٹس سردار طارق مسعود لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بننے کے حقدار تھے، انہیں چیف جسٹس نہ بنا کر صوبے کا نقصان ہوا، تاہم ان کی ترقی سے سپریم کورٹ کا فائدہ ہوگیا۔

جسٹس سردار طارق مسعود کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے؛ یہ اپنی رائے میں ہمشہ بڑے سیدھے رہے ہیں، ان کا اگر مجھ سے بھی اختلاف ہو تو یہ سیدھا کہہ دیتے ہیں، ان کی فیملی بہت اچھی ہے جو انہیں سپورٹ کرتی ہے۔

’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر، کہ دل ابھی بھرا نہیں ہے‘

جسٹس سردار طارق مسعود کی ریٹائرمنٹ کے ضمن میں اداسی کا ہلکا پھلکا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ممتاز بھارتی گلوکار محمد رفیع کے گائے ہوئے گانے کے بول ’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر، کہ دل ابھی بھرا نہیں ہے‘ دہرائے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق جسٹس سردار طارق کی عدالت زیادہ فیصلے سنانے کے لیے مشہور رہی ہے، انہوں نے امید ظاہر کی کہ سبکدوش جسٹس اب اپنی فیملی کو وقت دے سکیں گے۔

’میرے خلاف ریفرنس درست ہوتا تو جسٹس سردار طارق چیف جسٹس ہوتے‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے سے الیکشن پھر ڈی ریل ہو سکتے تھے، ہم نے چھٹیوں پر جانے سے پہلے رات کو بیٹھ کر اس آرڈر کے خلاف کیس سنا، جسٹس سردار طارق مسعود کا پس منظر میں بھی ایک کردار ہے۔

چیف جسٹس کے مطابق وہ تب یہ کیس تین سینئر ججز پر مشتمل بینچ بنا کر سننا چاہتے تھے، جسٹس اعجاز الاحسن نے بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد دوسرے سینئر جج کو ساتھ بٹھاکر رات 12 بجے فیصلہ سنایا، ایسا نہ ہوتا تو صدر پاکستان اور الیکشن کمیشن کی دی تاریخ پر الیکشن ڈیل ریل ہو سکتے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ بطور جج ان کے خلاف بھیجا گیا صدارتی ریفرنس بے بنیاد ثابت ہوا، ان کا موقف تھا کہ اگر ریفرنس درست ثابت ہوتا تو جسٹس سردار طارق چیف جسٹس آف پاکستان ہوتے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کیا کہا؟

اپنی ریٹائرمنٹ پر منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے الوداعی خطاب کرتے ہوئے جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ ‏‏عدلیہ کو متعدد بار سیاسی جماعتوں کی تنقید کا سامنا رہا،  اگر ایک جج کی تعیناتی چند طاقتور حلقوں کے فیصلوں کی قبولیت پر منحصر ہو گی تو عدلیہ کی آزادی ایک بے معنی جملہ بن کر رہ جائے گی۔

اپنی قانون کے پیشے سے 4 دہائیوں کی وابستگی کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس سردار طارق مسعود نے بتایا کہ انہوں نے ایک کمرے پر مشتمل اسکول سے تعلیم حاصل کی، جہاں بیٹھنے کے لیے ٹاٹ بھی میسر نہیں تھے، بارش ہونے پر چھٹی دیدی جاتی تھی، عدالتی کیٸریر کے دوران ہمیشہ انصاف کی فراہمی کی کوشش کی۔

جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی اور اختیارات کی تقسیم کے اصول پر عملدرآمد کے لیے آزاد عدلیہ ناگزیرہے، عدلیہ ہمیشہ عوام کے حقوق اور تحفظ کے لیے فیصلہ صادر کرتی ہے جس کی کئی مرتبہ اسے قیمت چکانا پڑتی ہے۔

’عدلیہ ہمیشہ قانون وآئین کے مطابق فیصلے کرتی ہے، عدلیہ فرد اور ریاست کے درمیان ایک محافظ دیوار کا کردار ادا کرتی ہے، جس سے ریاستی طاقت ایک حد سے تجاوز کرکے کسی کے انفرادی حقوق کو پامال نہ کر سکے، عدلیہ کے وقار کو برقرار رکھنے، قانون کی حکمرانی کیلٸے ضروری ہے کہ ایسے بلاخوف اور بلاامتیازفیصلے صادر کیے جائیں جن سے کسی قسم کا سیاسی، معاشی طبقات کا تاثر ظاہر نہ ہو۔‘

‘آزادی اظہارِ رائے کی آڑ میں ججز اور ان کے خلاف مہم چلانا ناقابلِ برداشت ہے’

فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں حالیہ ہونے والی تقرریاں صرف سینیارٹی کے ایک نکتے پر کی گئی ہیں، سپریم کورٹ بار اور وکلاء برادری کا بھی سینیارٹی پر تقرریوں کا دیرینہ مطالبہ تھا۔

’سینیارٹی پر کی گئی تقرریوں سے عدلیہ کا وقار بلند ہوا طریقہ کار میں شفافیت آئی ہے۔۔۔ زیر التواء مقدمات غیر معمولی کوششوں کے متقاضی ہیں عدالتوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کیس منیجمنٹ کے طریقہ کار میں بہترین لانے کی ضرورت ہے۔‘

شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار کا اصرار ہے کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مُلک کی بہتری کے لیے مل کر کام چلنا چاہیے، عدالتی فیصلوں پر کھلی بحث اور تنقیدی تجزیہ جمہوریت کے لیے لازم ہے۔ ’آزادی اظہار رائے کا بنیادی حق ذمہ داری اور احساسایت کا متقاضی ہے، آزادی اظہارِ رائے کی آڑ میں ججز اور ان کے خلاف مہم چلانا ناقابلِ برداشت ہے۔‘

‘فوجداری معاملات میں جسٹس سردار طارق مسعود کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا’

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے خطاب میں جسٹس سردار طارق مسعود کی سپریم کورٹ میں 8 سالہ خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی آزادی اور زندگی سے جڑے مسائل جسٹس سردار طارق مسعود نے کم وقت میں نمٹائے، فوجداری معاملات میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

جسٹس سردار طارق مسعود کے اہم فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ فوجداری معاملات میں جسٹس سردار طارق مسعود کا کوئی ثانی نہیں، بلا خوف و رغبت اپنے فرائض کی انجام دہی سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونیوالے جسٹس سردار طارق مسعود کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس منعقد کیا گیا، جس میں سپریم کورٹ کے ججز، اٹارنی جنرل، پاکستان بارکونسل، سپریم کورٹ بار سمیت دیگر شخصیات نے شرکت کی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp