امریکا سمیت دنیا بھر میں ایوانِ نمائندگان سے پاس ہونے والے بل کا چرچا ہے، جس میں ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کی بات کی گئی ہے۔ امریکیوں کو غیر ملکی دشمنوں کے زیرِ قبضہ ایپلی کیشنز سے بچانے کا بل (The Protecting Americans from Foreign Adversary Controlled Applications Act) کانگریس نے بھاری اکثریت سے مںظور کیا ہے اور ایوان میں موجود دونوں سیاسی جماعتوں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ ارکان نے اپنی سیاسی اختلافات کے باوجود اس بل کی حمایت کی ہے۔
مگر کیا واقعی امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی لگنے جا رہی ہے؟ اس کے لیے اس پورے معاملے کے پس پردہ محرکات کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔
بل میں ٹک ٹاک پر براہ راست پابندی کا ذکر نہیں
سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ عام تاثر کے برعکس امریکی کانگریس کے بل میں ٹک ٹاک پر براہ راست پابندی کا ذکر نہیں ہے ۔ اس بل کے مطابق امریکی کمپنیوں مثلاً گوگل اور ایپل وغیرہ، جن کے ذریعے ٹک ٹاک کا استعمال ہوتا ہے، کو پابند کیا جائے گا کہ وہ ٹک ٹاک کے ساتھ کاروبار نہ کریں۔
ٹک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس (ByteDance) کے 60فیصد حصص مختلف عالمی سرمایہ کار کمپنیوں کے پاس ہیں۔ 20فیصد حصص کمپنی کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ملازمین کی ملکیت ہیں، جبکہ باقی 20فیصد کمپنی قائم کرنے والے مالکان کے ہیں۔
فروخت پر مجبور
بل کے مطابق امریکی سرمایہ کار کمپنیوں کو بھی 6ماہ کے اندر ٹک ٹاک سے اپنا سرمایہ واپس نکال لینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں کمپنی مالکان اسے فروخت کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا
امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے۔ 2020 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے ایسی ہی کوشش کی تھی جسے وفاقی عدالتوں نے اس بنیاد ناکام بنا دیا تھا کہ امریکی حکومت نے ٹک ٹاک کے امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت پش نہیں کیا۔امریکی کانگریس میں حالیہ پیش کیے جانے والے بل کی بنیاد بھی یہی مبینہ خطرہ ہے۔
چین کا امریکی انتخابات پر اثر
امریکی دفتر برائے قومی سلامتی نے چند روز پہلے ایک بیان جاری کیا جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ چین کی پروپیگنڈا مشینری نے 2022 کے وسط مدتی انتخابات میں دونوں سیاسی جماعتوں، ریپبلکن اور ڈیموکریٹ، کے امیدواروں کو نشانہ بنایا تھا اور 2024 کے صدارتی انتخاب میں ایسی ہی کوشش دوبارہ ہو سکتی ہے ۔
جھگڑے کی بنیاد
امریکا اور چین کے درمیان یہ مخاصمت اور بداعتمادی ہی ٹک ٹاک پر ہونے والے جھگڑے کی بنیاد ہے۔ چینی حکومت ٹک ٹاک کی مالک کمپنی کے صرف ایک فیصد کی مالک ہے اور 3 بورڈ اراکین میں سے ایک رکن ان کے زیر اثر ہے۔ کمپنی کا ہیڈ کوارٹر بھی بیجنگ میں ہے۔ ٹک ٹاک کے بانی زینگ ییمنگ چین سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ موجودہ چیف ایگزیکٹو افسر شوزی چیو کا تعلق سنگا پور سے ہے ۔
زینگ ییمنگ کی وضاحت
پچھلے سال مارچ میں امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے توانائی اور تجارت کے سامنے ایک پیشی میں زینگ ییمنگ نے واضح الفاظ میں یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ ان کا چین کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ ٹک ٹاک استعمال کرنے والے امریکی صارفین کا ڈیٹا کبھی بھی چین کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا اور اس حوالے سے امریکی قوانین کی مکمل پابندی کی جاتی ہے۔
ٹک ٹاک کی پیشکش
ٹک ٹاک انتظامیہ نے یہ پیشکش بھی کی ہے کہ امریکی صارفین کا ڈیٹا کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی امریکی کمپنی اوریکل (Oracle) کے صدر دفتر میں رکھا جائے اور اس کی ٹک ٹاک انتطامیہ تک رسائی بھی کڑی نگرانی میں ہو۔ تاہم ابھی تک امریکی حکومت نے اس پیشکش کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔
بائیڈن کا عندیہ
ابھی یہ بل کانگریس سے امریکی سینیٹ میں جائے گا جہاں اس پر نئے سرے سے بحث ہو گی جو کئی ماہ جاری رہ سکتی ہے۔ صدر جو بائیدن نے عندیہ دیا ہے کہ اگر بل سینیٹ سے پاس ہو گیا تو وہ اس کو قانون بنانے کے لیے دستخط کر دیں گے۔
پابندی چیلنج ہوسکتی ہے
امریکی ماہرین قانون کے مطابق نئے بل کے بعد بھی ٹک ٹاک پر پابندی لگانا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ ٹک ٹاک کی انتظامیہ اس پابندی کو عدالت میں چیلنج کر سکتی ہے۔ امریکی ریاست مونٹانا نے پچھلے سال ٹک ٹاک پر پابندی لگائی تھی مگر وہ مقدمہ بھی ابھی تک عدالت میں زیرسماعت ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ اس نئے بل کے ذریعے ٹک ٹاک پر پابندی کا معاملہ بھی نومبر 2024 میں صدارتی انتخابات کے بعد تک لٹک جائے، تاہم اسے خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
قومی سلامتی کے منافی ایپلیکیشن
2020 میں ہم جنس پرستوں کی ایک ڈیٹنگ ایپ (Grinder) کے چین سے تعلق رکھنے والے مالک 600 ملین ڈالر میں اسے فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے جب امریکا میں اس ایپلیکیشن کو قومی سلامتی کے منافی قرار دے دیا گیا تھا۔ تایم ٹک ٹاک کی مالیت کا موجودہ تخمینہ 268 ارب ڈالر ہے اور امریکا کی تقریباً نصف آبادی ( 17کروڑ صارفین) اسے ستعمال کرتے ہیں۔
چیلنج
ٹک ٹاک اس وقت دنیا بھر میں سب سے مقبول سوشل میڈیا ایپ ہے اور امریکی کمپنیوں کی ملکیت دوسرے ایپلی کیشنز مثلاً میٹا (سابق فیس بک)، ایکس (سابق ٹوئٹر) اور انسٹاگرام وغیرہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج بھی ہے ۔
بات کہاں تک جا سکتی ہے
ٹک ٹاک کی زبردستی فروخت کی صورت میں بھی کاروبار میں منصفانہ مقابلے کو یقیبی بنانے کے ذمہ دار امریکی ادارے حرکت میں آسکتے ہیں۔ امریکا میں آزادی اظہار رائے پر کام کرنے والوں اداروں کی رائے میں اگر ٹک ٹاک پر پابندی لگ گئی تو یہ صرف ایک ایپلیکیشن تک محدود نہیں رہے گی۔ چین سے تعلق رکھنے والی آن لائن شاپنگ کی ایپلی کیشنز (Temu, Shein) امریکا میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں اور ان پر بھی قومی سلامت کی آڑ مں پابندی لگا ئی جا سکتی ہے۔ مسابقت کا جذبہ رکھنے والی امریکی کمپنیوں کی جانب سے اس پابندی کے حق میں کانگریس اور سینیٹ کے اراکین میں لابنگ کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پابندی لگانا آسان کیوں نہیں؟
امریکی کمپنیوں کی ایپلیکیشنز اور صارفین کے ڈیٹا کے استعمال کے طریقہ کار پر بھی مختلف اوقات میں سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ یوری یونین نے فیس بک اور انسٹا گرام کی مالک کمپنی میٹا (Meta) کو پرائیویسی قوانین کی خلاف ورزی پر پچھلے سال 1.3ارب ڈالر کا جرمانہ کیا تھا، تاہم امریکی قانون میں پہلی ترمیم آزادی اظہار رائے کو تحفظ دیتی ہے، اسی لیے ان کمپنیوں کو بیرونی دشمن کی طرف سے قومی سلامتی کے لیے خطرے کا جواز بنا کر امریکا کے اندر نشانہ بنانا آسان نہیں۔
پابندی امریکا تک محدود نہیں رہے گی
واضح رہے کہ ٹک ٹاک پر پابندی کا معاملہ صرف امریکا تک محدود نہیں ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اس حوالے سے خدشات طاہر کیے گئے ہیں، کیونکہ چینی قوانین کے تحت کسی بھی کمپنی کو اپنے صارفین کا ڈیٹا حکومت کے ساتھ شیئر کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی
گزشتہ برس یورپی یونین نے ٹک ٹاک کو 370 ملین ڈالر کا جرمانہ کیا تھا۔ آسٹریلیا، بیلجیئم، کینیڈا، ڈنمارک، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، تائیوان اور یوری پونین میں حکومت نے سرکاری اہلکاروں پر اپنے فون پر ٹک ٹاک رکھنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ پاکستان اور انڈونیشیا میں بھی وقتآ فوقتآ اس حوالے سے پابندی کے امکانات کا جائزہ لیا جاتا رہا ہے ۔