امریکی سیاست دان نئی قانون سازی پر بحث کر رہے ہیں جس کے ذریعے ملک میں ٹک ٹاک پر اس وقت تک پابندی لگائی جاسکے گی جب تک اس ایپلی کیشن کے چینی مالکان کمپنی فروخت نہ کر دیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ویڈیو شیئرنگ ایپ کے دنیا بھر میں لاکھوں صارفین ہیں لیکن اسے صارفین کے ڈیٹا کی حفاظت اور چینی حکومت سے اس کے مبینہ روابط پر سوالات کا سامنا ہے۔
امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کون لگانا چاہتا ہے؟
دونوں بڑی امریکی جماعتوں کے سیاستدانوں نے ایک نیا بل متعارف کرایا ہے جس کے تحت ٹک ٹاک پر پابندی لگ جائے گی تاوقتیکہ بائٹ ڈانس ایپ کو کسی غیر چینی کمپنی کو فروخت کرنے پر راضی نہ ہوجائے۔
مزید پڑھیں
قانون سازوں کو خدشہ ہے کہ چینی حکومت بائٹ ڈانس کو ٹک ٹاک کے 17 کروڑ امریکی صارفین کے بارے میں ڈیٹا حوالے کرنے کے لیے سیکیورٹی قوانین کا استعمال کر سکتی ہے۔
جبکہ ٹک ٹاک کا اصرار ہے کہ وہ چینی حکومت کو غیر ملکی صارف کا ڈیٹا فراہم نہیں کرے گی۔
امریکی ایوان نمائندگان نے 13 مارچ کو اس بل کو منظور کیا جس میں مجوزہ قانون کے حق میں 352 اور مخالفت میں 65 ووٹ پڑے۔
اب یہ سینیٹ میں منتقل ہوگا جہاں اسے سخت جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا سینیٹرز کی اکثریت اس بل کو منظور کرے گی یا نہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اگر سینیٹ سے منظوری مل جاتی ہے تو وہ اس بل پر دستخط کر دیں گے۔
امریکی حکام کی طرف سے ٹک ٹاک کو روکنے کی یہ تازہ ترین کوشش ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یو ٹرن
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2020 میں اس وقت ایپ پر پابندی لگانے کی کوشش کی تھی جب وہ وائٹ ہاؤس میں تھے۔
لیکن سنہ 2024 کے صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اب اس قانون سازی پر تنقید کر رہے ہیں۔ قانون سازی سے اختلاف کی انہوں نے یہ دلیل دی ہے کہ ٹک ٹاک کو محدود کرنے سے فیس بک کو غیر منصفانہ فائدہ ہوگا۔