وقت کے ساتھ پاکستان میں کتاب پڑھنے کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے، سوشل میڈیا کے دور نے قوم سے کتابی مطالعے کو کافی دُور کردیا ہے۔ یہ معاملہ محض عوام تک محدود نہیں بلکہ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی رہنما بھی اس ادبی شوق سے دُور ہوتے نظر آرہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب نہ صرف پاکستانی سیاستدان کتب بینی کا شوق رکھتے تھے بلکہ ان کے گھروں میں وسیع لائبریریاں بھی موجود تھیں۔
اس حوالے سے سابق وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کافی مشہور تھے۔ ان کی ذاتی لائبریری میں مختلف موضوعات پر کتابیں موجود تھیں۔ ان کا مطالعہ اس قدر شاندار تھا کہ انہیں کتابیں اور حوالے ہمشہ یاد رہتے تھے۔ بھٹو کے علاوہ ایوب خان، جنرل ضیاالحق، بینظیر بھٹو اور فاروق لغاری وہ لوگ تھے جن کے حوالے سے مشہور ہے کہ یہ مطالعے کے شوقین تھے۔
لیکن سیاسی رہنماؤں کا عوام پر اثر اس حد تک ضرور ہے کہ اگر کوئی سیاسی لیڈر اپنے کسی بیان کا انٹرویو میں کسی کتاب کی پسندیدگی کا اظہار کردے تو اس کے حوالے سے نہ صرف بحث چھڑ جاتی ہے بلکہ اس کتاب کی مانگ یا مطالعے میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے وی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کتب بینی سے متعلق سوال پر کہا تھا کہ ‘مجھے فکشن پسند ہے، فکشن میں ایک دو رائٹرز ہیں جو حقیقت کے قریب ہیں اور میں انہیں بہت شوق سے پڑھتی ہوں۔ الکیمسٹ اور ایلف شفق رائٹر کو بہت پسند کرتی ہوں اور فورٹی رولز آف لو میری پسندیدہ کتاب ہے‘۔
وی نیوز نے سیاستدانوں کی جانب سے ذکر کی گئی کتابوں پر عوامی ردِعمل جاننے کے لیے کچھ پبلشرز اور بک اسٹور مالکان سے بات کی۔ ان میں سے اکثریت کا یہی کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ جب بھی عوام میں مقبول شخصیت کتابوں سے متعلق تذکرہ کرے تو وہ توجہ ضرور حاصل کرتی ہے۔
سی ای او عکس پبلیکیشن اینڈ بک اسٹور محمد فہد کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی لیڈر عوام کے خاص طبقے کے لیے متاثر کن کردار کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کے کارکن ان کے اسٹائل اور ان کے فیشن کی پیروی کرتے ہیں۔ کتاب کے بارے میں کوئی بھی سیاستدان یا کوئی بھی مشہور شخصیت بات کرے تو وہ ہمیشہ عوام کی توجہ کا باعث بنتا ہے اور کتابوں کی مانگ میں فی الفور اضافہ نہ بھی ہو تو اس کے بارے میں عوام کی جانب سے استفسار ضرور کیا جاتا ہے’۔
مریم نواز کے انٹرویو کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ‘اس انٹرویو کے بعد الکیمسٹ کی انکوائریز ضرور آئی ہیں جو ایک اہم بات ہے۔ مریم نواز صاحبہ سمیت دوسرے لیڈران کو بھی کتابوں پر بات کرنی چاہیے جیسے دنیا بھر میں لیڈران کے کتابوں کے حوالے سے سیگمنٹس ہوتے ہیں تاکہ کتابوں کے پڑھنے کے رجحان میں تیزی آئے اور وہ کلچر دوبارہ سے پیدا کیا جائے جو ہمارا کلچر ہوا کرتا تھا’۔
اسلام آباد مسٹر بکس کے سی ای او عبداللہ یوسف کا کہنا تھا کہ ’بالکل سیاسی رہنماؤں کے بیان کی وجہ سے کتابوں کی خرید میں اضافہ ہوتا ہے جیسے عمران خان نے اپنے دورِ حکومت میں کچھ کتابیں تجویز کی تھیں جن میں سے لاسٹ اسلامک ہسٹری اور سیکریٹ آف ڈیوائن لو، جس کے بعد بہت سے طلبہ، بیوروکریٹس اور کچھ سول سرنٹس تھے جنہوں نے ہمیں باقاعدہ تصویریں بھیجی تھیں ان کتابوں کی۔ تو لوگ تجویز کے بعد ان کتابوں کو پڑھنے کے خواہشمند ہوئے تھے۔ الکیمسٹ تو بہت مشہور کتاب ہے اور ہر دوسرے دن لوگ خرید رہے ہوتے ہیں اور اس کتاب کے حوالے سے گفتگو کے بعد تو ظاہر سی بات ہے کہ خرید میں اضافہ ہوگا’۔
اردو بازار کراچی ویلکم بک پورٹ ایک بڑا بک سینٹر ہے۔ اس سے وابستہ محمد زبیر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’کوئی بھی بڑا سیاستدان، اینکر یا کوئی اداکار کہیں بھی کسی بھی کتاب کے متعلق ذکر کرے تو اس کی ’سیل پاور‘ بڑھ جاتی ہے۔ جیسے حال ہی میں سابق وزیرِاعظم عمران خان نے ایک کتاب ’شارٹ ہسٹری آف اسلام‘ کا ذکر کیا تھا جس کے بعد اس کتاب کی خرید میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا۔ اسی طرح ابھی مریم نواز صاحبہ کے انٹرویو کے بعد ’الکیمسٹ‘ کی سیل میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر کسی چینل یا اخبار میں بھی کسی کتاب کے متعلق ریویوز آتے ہیں تو کتاب کی خرید میں خود بخود اضافہ ہوجاتا ہے‘۔
پاکستان کے ایک اور بڑے پبلشر نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہر سیاستدان کو کتاب کے حوالے سے بات کرنی چاہیے تاکہ عوام میں کتاب پڑھنے کا رجحان بڑھے اور اسی حوالے سے انہوں نے سابق وزیرِاعظم عمران خان کے حوالے سے کہا کہ عمران خان نے کورونا میں بہت سی کتابیں اپنی سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے اپنے صارفین کو پڑھنے کا مشورہ دیا جن میں فورٹی رولز آف لو، لاسٹ اسلامک ہسٹری، ریکلیمنگ مسلم سویلائزیشن سمیت دیگر کتابیں شامل ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کی سوشل میڈیا پر کتابوں کی پوسٹ کے بعد ان کتابوں کی خرید میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا اور یہ بہت اچھی بات ہے کہ ہمارے سیاستدان کتابوں کے بارے میں ذکر کریں اور ان کا حوالہ اپنی گفتگو میں دیں تاکہ عوام کا اعتماد ان پر مضبوط ہو اور وہ کتاب پڑھنے میں دلچپسپی بھی لیں‘۔
اعزاز یافتہ مصنف اور پبلشر سعود عثمانی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بطور پبلشر مجھے لگتا ہے جب کوئی لیڈر کتاب کی بات کرتا ہے تو اس کتاب کی فروخت میں قدرتی طور پر فرق پڑتا ہے۔ اگرچہ شریف خاندان کے بارے میں کتاب پڑھنے کے حوالے سے باتیں مشہور نہیں ہیں کہ ان کی کتاب سے خاص رغبت رہی ہو، البتہ مریم نواز صاحبہ نے حال ہی میں کچھ کتابوں کے بارے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے‘۔
انہوں نے وی نیوز کے ایک سوال پر کہا کہ ’فوری طور پر تو کسی بھی انٹرویو سے فروخت میں اضافہ سامنے نہیں آتا مگر یہ محسوس ہوتا ہے کہ لوگ توجہ ضرور دیتے ہیں۔ جو اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ مہنگائی کے دور میں بھی اپنے بجٹ کا ایک حصہ ان کتابوں کے لیے مخصوص کرلیتے ہیں جن کے بارے میں ان کو معلوم ہوجائے کہ یہ کتابیں پڑھی جانی چاہئیں‘۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سعود عثمانی کا کہنا تھا کہ ‘عمران خان کی بات کی جائے تو وہ خود کتابوں کے مصنف ہیں مگر ان کے دورِ حکومت میں کتابوں یا اداروں کے حوالے سے کوئی بڑا کام سامنے نہیں آیا۔ تاہم ان کی کتابوں کی طرف دلچسپی ان کے مصنف ہونے سے ظاہر ہوتی ہے‘۔
لاہور سنگ میل کے پبلشر علی کامران نے کتابوں کی مانگ بڑھ جانے کے حوالے سے کہا کہ ’صحیح وقت پر صحیح رائے کے ساتھ صحیح شخص ضرور اثر ڈالتا ہے۔ چاہے وہ کوئی سیاستدان ہو یا کوئی بھی بڑی شخصیت جو عوام کے لیے متاثر کن ہو، لیکن یکدم سے کتابوں کی خرید میں اضافہ ہو، یہ تمام اتفاقات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔ مگر کتاب کا تذکرہ سیاستدان کی پروفائل اور ان کے پیروکاروں پر گہرا اثر ڈالتا ہے‘۔