55 برس کے عتیق الرحمٰن کو کوئی نہیں جانتا۔3 بیٹوں اور 4 بیٹیوں کے باپ عتیق الرحمٰن کو کوئی نہیں جانتا۔ لاہور کے گنجان آباد علاقے لکشمی چوک سے آگے جائیں تو نسبت روڈ سے ہوتے ہوئے دیال سنگھ کالج کے سامنے آبادی کی ایک تنگ سی گلی میں، ایک ٹوٹے مکان پر سبز رنگ کا ایک خستہ حال گیٹ ہے۔ دیواروں سے پلستر اکھڑا ہوا ہے۔ رنگ روغن کی آسائش کبھی میسر نہیں رہی۔ بجلی کے ننگے تار، بیرونی کمرے کی ٹوٹی جالیاں، اور ٹپکتی چھت گھر والوں کی مالی حالت کی گواہی دے رہی ہے۔ اسی 3 مرلے کے گھر کا مرکزی دروازہ کھولیں، پہلے بیٹھک شروع ہوتی ہے۔ جہاں پر 2 بینچ اور ایک کرسی موجود ہے۔ ایک مضمحل سا پنکھا بھی ہے، جو کسی بھی لمحے چھت سمیت گر سکتا ہے۔
اس گھر کے مالک عتیق الرحمٰن کو آپ نہیں جانتے۔ نہ آپ نے کبھی ان کا نام سنا ہوگا نہ کسی کتاب میں تذکرہ لکھا گیا ہوگا، نہ کبھی خبرنامے میں اس کی خبر چلی ہوگی نہ اس کے حالات پر کوئی ڈاکومنٹری بنی ہوگی۔ عتیق الرحمٰن کا تعارف لمبا چوڑا ہے بھی نہیں۔ بس اتنا سا قصہ ہے کہ وہ ن لیگ کا بے انتہا وفادار کارکن تھا۔ اطلاع صرف اتنی ہے کہ اس وفادار کارکن نے گزشتہ دنوں غربت سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔
عتیق الرحمٰن کو ن لیگ سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ میاں صاحب کے عشق میں گرفتار تھا۔ ہر جلسے میں پیش پیش رہتا۔ وہ پولیس کے ہر کریک ڈاؤن میں ماریں کھاتا اور اپنے زخموں کا تمغہ سجاتا تھا۔ کئی راتیں اس نے تھانے میں گزاریں، کتنے ہی ماہ وہ جیل میں رہا۔ ن لیگ سے یہی عشق اس کے سارے خاندان کو تھا۔ باپ بھائی سب ’میاں دے نعرے‘ لگاتے تھے۔ مشرف کے دور میں جب لاہور کے طاقتور لوگ ایک ڈکٹیٹر کے ساتھ مل گئے تو عتیق الرحمٰن اپنی بساط کے مطابق عَلم بغاوت بلند کرتا اور پھر اس کا بھگتان بھی ادا کرتا رہا۔
تحریک نجات ہو، پرویز الٰہی کا دور ہو، مشرف کے عہد کا جبر ہو، عثمان بزدار کی فائق قیادت ہو، فیاض علی چوہان سے مقابلہ ہو، عتیق الرحمٰن نے کبھی کسی کی پروا نہیں کی۔ ایسے میں جب سب خوف سے سہمے ہوئے ہوتے عتیق الرحمٰن ن لیگ کا جھنڈا برسرعام لے کر نکلتا اور کبھی زخمی ہو کر گھر لوٹتا، کبھی لباس تار تار ہوتا، کبھی بدن لہو لہو رستا۔ لیکن اس کے ہونٹوں پر نعرہ مستانہ ن لیگ ہی کا رہتا کہ وہ اس کا سودائی تھا۔
عتیق الرحمٰن کو سیاست کی لت ایسی لگی کہ وہ جم کر کاروبار نہ کر سکا۔ ہال روڈ پر موبائل مارکیٹ میں ایک چھوٹی سی دکان تھی جو اس نے کرائے پر دے رکھی تھی۔ دکان سے 20-30 ہزار روپے کرایہ آ جاتا تھا۔ بس یہی گزر بسر کا ذریعہ تھا۔ اسی کے سہارے ایک بیوی اور 7 بچے پل رہے تھے۔ دوستوں نے سمجھایا کہ دکان پر خود بیٹھا کرو۔ کرائے پر دینے سے گزارا نہیں ہوگا۔ اس پر عتیق الرحمٰن سیخ پا ہو جاتا۔ اپنے دوستوں کو اپنی مصروفیات کا احوال سنانا شروع کر دیتا کہ کب چھوٹے میاں صاحب کی پیشی ہے؟ کب حمزہ شہباز کو کارکنوں سے خطاب کرنا ہے؟ کب مریم نواز نے نیب کی عدالت میں پیش ہونا ہے، کب میاں صاحب کے طیارے نے لاہور میں لینڈ کرنا ہے؟ کب کس ایم این اے نے جلسے میں کارکنوں کو طلب کیا ہے؟ کہاں پولیس ریڈ کا مقابلہ کرنا ہے؟ کہاں کرسیاں لگانی ہیں؟ کہاں نعرے لگانے ہیں؟ وہ اپنی ساری مصروفیات گنوا دیتا۔ ایسے میں کاروبار کی فرصت کسے ملتی؟ دکان سنبھالنے کا ہوش کس کو رہتا؟
کارکن پارٹیوں کی جان ہوتے ہیں۔ تحریکیں کارکنوں کی وجہ سے بپا ہوتی ہیں۔ کارکن کسی بھی سیاسی جماعت کا نیوکلیس ہوتے ہیں۔ کارکن نہ ہوں تو جماعتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ سیاسی جماعت ایک جسم ہے تو کارکن اس میں دل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں سے وفا نہیں کرتیں وہ فنا ہو جاتی ہیں۔ پارٹی کارکنوں کی عزت سے پارٹی لیڈروں کی عزت ہوتی ہے۔ یہ سب عتیق الرحمٰن نے تو بہت سنا ہوا تھا مگر ان کی محبوب سیاسی جماعت ان اصول و قواعد کو مدتوں سے بھول چکی تھی۔
لوگ بہت ظالم ہیں، کہتے کہ عتیق الرحمٰن نے پارٹی کی طرف سے مایوس ہونے پر خود کشی نہیں کی بلکہ خانگی جھگڑوں سے تنگ آ کر خود کو زندگی کے آزار سے آزاد کیا۔ لوگ نہیں جانتے غربت خانگی جھگڑوں کی بنیاد ہوتی ہے۔ لوگوں کو یہ بھی نہیں پتا کہ عتیق الرحمٰن کی اہلیہ نے گھر چھوڑنے سے پہلے ایک جملہ کہا تھا کہ ’انسان خود تو بھوک برداشت کر لیتا ہے مگر بچوں کی بھوک برداشت نہیں ہوتی‘۔
عتیق الرحمٰن نے اپنی اہلیہ کو منانے کی بہت کوشش کی، اس کے سامنے میاں کے نعرے ہر انگ اور ہر رنگ سے لگائے۔ اس کے سامنے پارٹی پرچم کئی دفعہ لہرایا۔ اسے اپنے جسم پر سجے زخم دکھائے جو مختلف مواقع پر ریاستی جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے میسر آئے تھے۔ اس نے اپنی اہلیہ کے سامنے ووٹ کی عزت کا فلک شگاف نعرہ بھی لگایا، مگر اس کی اہلیہ بضد تھیں کہ ان نعروں سے بچوں کی بھوک نہیں مٹتی۔ جب کوئی دلیل بھی کام نہ آئی تو اپنی ساری زندگی پر کفِ افسوس ملتے ہوئے عتیق الرحمٰن نے پستول سے ایک گولی اپنے بدن میں اتار لی۔
عتیق الرحمٰن کے جنازے پر پارٹی کا کوئی اہم رہنما شریک نہیں ہوا۔ کسی قومی سطح کے لیڈر نے ان کی وفات پر تعزیت کا بیان نہیں دیا۔ کسی نے ان کے اہل خانہ کی کفالت کا ذمہ نہیں لیا۔ کسی نے سینہ ٹھوک کر یہ نہیں کہا کہ اس کے بچوں کو ہم مفت تعلیم دلوائیں گے، کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس کی بیوہ کے گزر بسر کا انتظام ہم کریں گے۔ کسی نے احد چیمہ کے بچوں کی طرح عتیق الرحمٰن کے بچوں کی فیس معاف کرانے کی کوشش نہیں کی۔ احد چیمہ کے حق میں بولنے والا کوئی گورنر عتیق الرحمٰن کی حمایت میں نہیں بولا، کوئی وزیر اطلاعات عطا تارڑ عتیق الرحمٰن کی حمایت میں کھڑا نہیں ہوا۔
کسی نے کچھ نہیں کہا، کسی نے کچھ نہیں کیا اور میانی صاحب کے ایک تاریک گوشے میں عتیق الرحمٰن کو سپرد خاک کر دیا گیا کہ
’یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا‘
کبھی قبرستان میانی صاحب جانے کا موقع ملے تو پارٹی کے مخلص کارکن عتیق الرحمٰن اور ان کی پارٹی پر فاتحہ ضرور پڑھیے گا۔