مالاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے محمد اقبال نے پنجاب کی نگراں حکومت کے وزیراطلاعات عامر میر کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی کالعدم تنظیم کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی کسی دہشت گرد سرگرمیوں سے ان کا تعلق ہے۔
اپنے ایک ویڈیو بیان میں محمد اقبال کا کہنا تھا کہ وہ زمان پارک میں واقع چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہائشگاہ پر ضرور موجود تھے لیکن اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے لاہور پہنچے تھے۔
یاد رہے کہ پنجاب کی نگراں حکومت کے وزیر اطلاعات عامر میر نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے رکن اور صوفی محمد کے دست راست محمد اقبال سمیت مختلف دہشت گرد زمان پارک میں موجود ہیں۔ وزیر اطلاعات نے یہ بھی کہا تھا کہ محمد اقبال نے آٹھ سال جیل بھی کاٹی ہے۔
محمد اقبال نے کا کہنا تھا کہ ان کے حوالے سے کہی گئی باتیں بے بنیاد ہیں جو پی ٹی آئی یا ان کی اپنی مخاصمت میں پھیلائی جا رہی ہیں۔ ان کامزید کہنا تھا کہ ان کا تعلق صرف ایک ہی پارٹی سے ہے جو پی ٹی آئی ہے اور وہ کسی بھی دہشت گرد سرگرمی میں ملوث نہیں۔
انھوں نے کہا کہ جہاں تک زمان پارک جانے والی بات ہے تو یہ بالکل صحیح ہے کیوں کہ بحیثیت پی ٹی آئی کارکن یہ ممکن نہیں تھا کہ چیئرمین کال دیں اور کارکن وہاں نہ جائیں۔
محمد اقبال کون ہیں؟
ساٹھ سالہ محمد اقبال کا تعلق سوات کے علاقے فتح پور سے ہے اور وہ سوات اور مالاکنڈ میں خصوصاً سنہ 2009 تک ایک معروف شخصیت تصور کیے جاتے تھے۔
سوات کے سینیئر صحافی شہزاد عالم نے سوات میں صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی سے لے کر ملا فضل اللہ کے دور تک کی کوریج کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ محمد اقبال کا شمار صوفی محمد کے قریبی اور قابل اعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
شہزاد عالم نے بتایا کہ جب صوفی محمد نے سنہ 1992 میں دیر سے اپنی تحریک آغاز کیا تو سوات میں ان کی تحریک کئی سالوں تک کوئی خاص جڑ نہیں پکڑ سکی تاہم اسے سنہ 1994 میں مقبولیت حاصل ہوئی اور سوات کے مذہبی سوچ رکھنے والے افراد اس کا حصہ بننے لگے اور انہی میں سے ایک محمد اقبال بھی تھے۔
سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ محمد اقبال سنہ 2000 میں اس تحریک کے انتہائی فعال رکن بن کر سامنے آچکے تھے اور اسی سال کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی سوات کے امیر مقرر کردیے گئے اور یہ ذمہ داری انھوں نے سنہ 2009 تک نبھائی۔
شہزاد عالم کا مزید کہنا تھا کہ محمد اقبال نے تحریک کے لیے کوئی مسلح جدوجہد نہیں کی اور ان کی کاوشوں کا محور بس یہی تھا کہ مالاکنڈ میں شریعت کا نفاذ ہوجائے۔
سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ محمد اقبال ہر موڑ پر صوفی محمد کے ساتھ دکھائی دیے اور وہ صوفی محمد کے ساتھ جہاد کے لیے افغانستان بھی گئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ جب محمد اقبال افغانستان سے واپس آئے تو انھیں گرفتار کر لیا گیا اور وہ آٹھ سال تک جیل میں رہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ سنہ 2008 میں جب عوامی نیشنل پارٹی نے صوفی محمد کو مذاکرات کے لیے آمادہ کیا تو محمد اقبال بھی ان کے ساتھ کھل کر منظر عام پر آئے۔
شہزاد عالم نے کہا کہ سنہ 2009 میں حکومت نے صوفی محمد کی تحریک کو کالعدم قرار دے دیا اور ان کے داماد ملا فضل اللہ نے ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کیا لیکن صوفی محمد کی طرح محمد اقبال نے بھی فضل اللہ سے دوری اختیار کرلی۔
انھوں نے بتایا کہ اس کے بعد سے محمد اقبال بھی منظر عام سے غائب ہو گئے تھے اور ایک گمنام زندگی اختیارکرلی تھی تاہم سنہ 2022 سے وہ پی ٹی آئی کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے دکھائی دیے۔