اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے اسکندر مرزا اور ایوب خان کے ذہن میں خاکہ بہت پہلے سے تھا بس وہ اس میں رنگ بھرنے کے لیے مناسب موقعے کی تاک میں تھے۔ جمہوریت اور آئین ان کی نظر میں بے وقعت تھے۔ مارشل لا 1958 میں لگا لیکن اس سے پہلے کے برسوں میں حکومتیں غیر مستحکم کرنے اور وزرائے اعظم کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی سازشیں کرنے والے یہ کردار اصل میں دونوں ایک تھے۔
اسکندر مرزا کی ریشہ دوانیوں کو عسکری کمک حاصل تھی۔ اسی خدمت کا صلہ اسکندر مرزا نے ایوب خان کو مدت ملازمت میں ایکسٹینشن کی صورت میں دیا جس کے لیے مرزا نے حکم نامہ اپنے ہاتھ سے تحریر کیا اور اس پر ‘موسٹ امیجیٹ’ کا لیبل پن کر کے قدرت اللہ شہاب سے کہا اسے وزیر اعظم فیروز خان نون کو دے آؤ۔
ضیاء الحق نے 1977 میں آئین کے خلاف زہر اگلا تھا، اس سے 19 سال پہلے اسکندر مرزا اسے ٹریش کہا کرتے تھے۔ دونوں کی الیکشن کروانے سے جان جاتی تھی۔ ضیاء الحق نے قوم سے 90 دن میں الیکشن کا جھوٹا وعدہ کیا اور اسکندر مرزا اسے مختلف حیلوں سے ٹالتے رہے کیوں کہ انتخابات کی صورت میں انہیں اپنی سیاسی موت نظر آتی تھی۔
پاکستان کے ابتدائی دور میں سیاست دانوں کے آپسی جھگڑوں کا ذکر تو بہت ہوتا ہے لیکن انہوں نے بہت تاخیر سے سہی بہر طور 1956 کا آئین بنا لیا تھا۔ آئین بننے کے بعد سیاست دان اس کے تحت الیکشن مانگ رہے تھے جو اسکندر مرزا اور ایوب خان کو وارا کھاتے تھے نہ ہی ان کے مائی باپ امریکا کو۔
معروف دانشور طارق علی کے خیال میں مارشل لا الیکشن سے بچنے کے لیے لگایا گیا تھا کیونکہ امریکا کو خدشہ تھا کہ قوم پرست جماعتیں الیکشن جیت کر اس کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے توڑ دیں گی۔ طارق علی کی دانست میں یہ جماعتیں واقعی یہ کر گزرتیں اس لیے امریکا نے مارشل لا کا انتظام کیا۔
اصغر خان کے مطابق امریکا اور برطانیہ کو مارشل لا کا پہلے سے علم تھا۔
عائشہ جلال نے ‘ دی سٹرگل فار پاکستان ‘ میں لکھا ہے کہ سات اکتوبر 1958 کی رات اسکندر مرزا نے ایوب خان کی موجودگی میں سب سے پہلے امریکی سفیر اور برطانوی ہائی کمشنر کو ایوان صدر طلب کرکے مارشل لا کے بارے میں بتایا۔ ان سفارت کاروں کو یقین دلایا گیا کہ نئی حکومت پہلے سے زیادہ مغرب نواز ہو گی اور سرد جنگ میں کمیونزم کے خلاف بین الاقوامی کمٹمنٹس کی پاسداری کرے گی۔
ڈاکٹر سید جعفر احمد کے نزدیک: ‘ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے پیچھے اسکندر مرزا اور ایوب خان کا مشترکہ مقصد پارلیمانی جمہوریت کے اس نظام کا سدباب کرنا تھا جس کے قیام اور فروغ کے امکانات آنے والے انتخابات کے پیش نظر روشن ہو رہے تھے۔’
یہ وہ تناظر تھا جس میں متحدہ پاکستان کے آخری وزیراعظم فیروز خان نون کو الیکشن پر اصرار کی وجہ سے اسکندر مرزا نے ذلت آمیز خط کے ذریعے عہدے سے برطرف کر کے مارشل لا لگایا۔ اس خط کی عبارت ذرا ملاحظہ کریں:
’ایوانِ صدر، کراچی
7 اکتوبر 1958ء
مائی ڈیئر سر فیروز!
میں بڑے غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس ملک میں استحکام اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا، جب تک اس کی ذمہ داریاں میں خود نہ سنبھال لوں اور انتظامیہ کو اپنے ہاتھ میں نہ لے لوں۔ 23 مارچ 1956ء کا آئین نہ صرف یہ کہ ناقابل عمل ہے بلکہ پاکستان کی سالمیت اور اس کے استحکام کے لیے خطرناک بھی ہے۔ اگر ہم اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتے رہے تو بالآخر ہمیں پاکستان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
لہٰذا مملکت کے سربراہ کی حیثیت سے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئین منسوخ کردوں، تمام اختیارات خود سنبھال لوں۔ اسمبلیوں، مرکزی پارلیمنٹ اور مرکزی اور صوبائی کابینہ کوتوڑ دوں۔ مجھے صرف اتنا افسوس ہے کہ یہ فیصلہ کن انقلابی اقدام مجھے آپ کی وزارت عظمیٰ کے زمانہ میں کرنا پڑا ہے۔ جس وقت آپ کو یہ خط ملے گا مارشل لا نافذ ہو گیا ہو گا اور جنرل ایوب جنہیں میں نے مارشل لا کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا ہے اپنے اختیارات سنبھال چکے ہوں گے۔
آپ کے لیے ذاتی طور پر میرے دل میں بڑا احترام ہے اور آپ کی ذاتی خوشی اور فلاح کے لیے جو کچھ بھی ضروری ہوا میں بے تامل کروں گا۔
آپ کا مخلص
اسکندر مرزا‘
آئین ناقابلِ عمل ہے۔ ملک کے استحکام اور اسے بچانے کے لیے میرا اقتدار میں آنا ناگزیر ہے۔ یہ انقلابی قدم ہے۔ ایوب خان مارشل لا کے ناظم اعلیٰ ہوں گے۔
یہ خلاصہ ہے صدر مملکت کے اس مراسلے کا۔
اسکندر مرزا نے لندن میں آئین شکنی کا یہ جواز پیش کیا تھا:
‘پاکستان میں سیاست ایک بند گلی بن چکی تھی، مجھے اس میں سے راستہ بنانے کے لیے مارشل لا نافذ کرنا پڑا۔’
ان کا یہ بیان عذر گناہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ بند گلی میں سیاست آئین پر عمل نہ کرنے اور الیکشن نہ کروانے سے جاتی ہے اور اس مقام پر سیاست کو اسکندر مرزا ہی لے کر گئے تھے جہاں سے وہ ذلت اور گم نامی کے اس پاتال میں جا گرے جہاں سے عمر بھر نہ نکل سکے۔
اسکندر مرزا کی دل میں دورہ سپین کے دوران ڈکٹیٹر بننے کی خواہش نے انگڑائی لی تھی۔ جنرل فرانکو کی ملک پر آہنی گرفت سے وہ متاثر ہوئے تھے لیکن وہ ’ایشیا کے ڈیگال‘ کے جال میں پھنس گئے۔
ڈاکٹر آفتاب احمد نے اپنی کتاب ’بیاد صحبت نازک خیالاں ‘ میں لکھا ہے کہ’انقلابِ اکتوبر ‘ سے چند ماہ پہلے مجید ملک نے اسکندر مرزا کو عراق میں ان کے دوست نوری السعید کی نعش گلیوں میں کھینچے جانے کی خبر سنائی تو انہوں نے کہا:
“Poor Nuri ,He did not know his Generals.”
ڈاکٹر آفتاب احمد سے مجید ملک نے کہا ’اسکندر مرزا غریب کو اس وقت کیا معلوم تھا کہ ان کے جرنیل جو ان کے دوست بھی تھے، خود ان سے کیا سلوک کرنے والے ہیں۔’
اسکندر مرزا کے ساتھ جو ہونے جا رہا تھا اس پر مجھے احمد مشتاق کا شعر یاد آتا ہے:
کل دیکھنا کہ بحر فنا میں اتر گئے
چلتا ہے وقت جن کے اشارے کو دیکھ کر
اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو نکال کر ایوب خان کی مدد سے ملک پر قبضہ تو کر لیا لیکن اس کے بعد وہ بمشکل 20 دن ہی صدر رہ پائے اور ان کا مطلق العنان حاکم بننے کا منصوبہ پٹ گیا۔ سیاست میں مکافات عمل نام کی کوئی چیز اگر ہوتی ہے تو مرزا جتنی جلدی اس کا نشانہ بنے اس کی مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملے گی۔
مارشل لا نافذ ہونے کے بعد انہیں اندازہ ہوگیا کہ طاقت کی اصل کنجی تو کمانڈر انچیف کے پاس ہے، جو اب ان کی عنایت سے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور وزیر اعظم بھی ہیں. انہوں نے اس کے خلاف سازش رچانی چاہی، جس کی مدد سے کبھی ان کی سازشوں کا چراغ جلا کرتا تھا، لیکن اب وہ خود مقابلے پر تھا. اس لیے لینے کے دینے پڑ گئے۔ ایوب خان نے کھلے عام اسکندر مرزا کو جتلا دیا کہ طاقت کا سرچشمہ اب ان کی ذات گرامی ہے۔
غیر ملکی صحافیوں کو دونوں سورما انٹرویو دے رہے تھے، جس میں مستقبل کے فیلڈ مارشل نے واضح کیا : ’اگر صدر یا ان کا جانشین کسی خرابی کی صورت میں مؤثر کارروائی نہیں کرتے یا خدانخواستہ کوئی غیر معقول حرکت کرتے ہیں اور سیاست دانوں سے مل جاتے ہیں تو میں کارروائی کروں گا اور فیصلے کا اختیار بھی میرے پاس ہو گا۔ ‘ الطاف گوہر کے بقول ’یہ الفاظ دراصل اسکندر مرزا کے لیے ایک تنبیہ تھی جو انہیں سرعام دی جا رہی تھی۔ ‘
ایوب خان بھی اندر سے خوفزدہ تھے۔ انہی دنوں ایک فوجی افسر نے ان سے کہیں یہ کہہ دیا کہ آپ نے خبر سنی؟ اس پر انہیں لگا کہ اسکندر مرزا نے کچھ کر دیا ہے۔ انہیں سکون کا سانس اسی وقت آیا جب یہ معلوم ہوا کہ فوجی افسر کا اشارہ رنگون میں فوجی بغاوت کی طرف تھا۔
بہرصورت اکتوبر 1958 کے آخری ایام تک اسکندر مرزا کو معلوم تو ہو گیا کہ ان کے دن گنے جا چکے لیکن جاتے جاتے بھی وہ نہ جانے کس دھیان میں تھے کہ ایوب پر وار کرنا چاہا جو اوچھا پڑا۔
ایوب خان کو صدر کی سازشوں کی خبر ہوئی تو انہوں نے ان سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنی نگرانی میں یار خاص کا استعفا ٹائپ کرایا۔ تین معتمدانِ خاص، جنرل اعظم خان، جنرل واجد علی برکی اور جنرل کے ایم شیخ کو اسکندر مرزا سے جبری استعفا لینے کے لیے ایوان صدربھیجا۔ یہ بھی طے پایا کہ اعظم خان استعفے کی فائل مرزا کے سامنے رکھیں گے۔
کمانڈر انچیف کے فرزند ارجمند اور ہمارے آج کے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے والد محترم گوہر ایوب نے اپنی کتاب ‘ایوان اقتدار کے مشاہدات’ میں لکھا ہے کہ اس مہم پر روانہ ہوتے وقت انہوں نے جنرل اعظم خان کو اپنا ریوالور پیش کیا جس میں چھ گولیاں موجود تھیں۔ گوہر ایوب کے بقول، جنرل برکی نے اس موقعے پر کہا کہ ’یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اسکندر مرزا کے ساتھ ایک تھالی میں کھانے کے بعد اسے دبوچنے جارہے ہیں۔‘
تین رکنی جرنیلی ٹیم، ہمراہ ایک جونئیر افسر عبدالمجید ملک ( بعد میں لیفٹینٹ جنرل بنے اور وفاقی وزیر بھی رہے ) جنہوں نے استعفا ٹائپ کیا تھا اور اب استعفے کی فائل تھامے ہوئے تھے، قصر صدارت پہنچی۔ معلوم ہوا کہ مرزا صاحب اوپر والی منزل پر محوِاستراحت ہیں۔ ان کی نیند خراب کرنے کا حکم دیا گیا۔ مرزا نے بیدار ہونے کے بعد بیدار مغز مہمانوں کو پیغام بھیجا کہ اوپر آ جائیں تو جواب ملا، نہیں، آپ نیچے اتر آئیں. اس حکم کی تعمیل ہوئی۔
اسکندر مرزا بڑی تعداد میں مسلح فوجیوں کو ایوان صدر میں متحرک دیکھ کر حق دق رہ گئے کہ یہ ماجرا کیا ہے؟ انہیں خیال گزرا شاید مشرقی پاکستان میں کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے۔ نہ جانے یہ بات ان کے ذہن میں کیسی آئی کیوں کہ ایسی کوئی بات ہوتی تو کراچی میں صدر صاحب کو مطلع کرنے کا یہ کون سا طریقہ تھا۔ خیر جلد ہی ان پر سب کچھ واضح ہو گیا۔
جنرل اعظم خان نے صدر مملکت کو ورود مسعود کا سبب بتایا۔ اسکندر مرزا نے پس وپیش سے کام لیا تو اعظم خان نے اپنی انگلی استعفے کے کاغذ پر رکھ کر کہا : ’یہاں دستخط کیجیے‘ اس حکم سے سرتابی کی میزبان کو مجال نہ تھی۔ یہاں اسکندر مرزا کے ہاتھوں کے طوطے اڑ چکے تھے اور ادھر ان کی عزیز از جان بیگم ناہید اسکندر مرزا نے جب یہ سب دیکھا تو انہیں نہ جانے کیا سوجھی کہ چلانے لگیں ’ہائے! میری بلیوں کا کیا ہو گا۔ ‘
اسکندر مرزا نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جس رات کو ان سے گن پوائنٹ پر استعفا لیا گیا اس دن شام کو ان کی ایوب خان اور جنرل برکی سے دوستانہ ماحول میں ملاقات ہوئی تھے اور تینوں نے مشروبات سے شغل فرمایا تھا۔
گن پوائنٹ پر استعفا لینے کے بعد تینوں جرنیل ایوان صدر سے رخصت ہوئے۔ ان کے بعد بریگیڈیر شیر بہادر نے اسکندر مرزا اور ان کی اہلیہ کے ساتھ بدتمیزی کی جس سے انہیں بڑی تکلیف ہوئی۔ میاں بیوی نے جلدی جلدی سامان سمیٹا۔ پہلے کوئٹہ اور پھر چند دن بعد لندن روانہ ہوئے جہاں ایک کٹھن زندگی ان کی منتظر تھی کیوں کہ ان کے پاس موجود رقم اور قیمتی سامان ضبط کر لیا گیا تھا۔ انہیں نجی کاغذات اور ڈائریاں بھی ساتھ لے جانے نہیں دی گئی تھیں۔
ایوان صدر کے باہر اس جوڑے کی تذلیل کا ایک واقعہ اصغر خان نے ‘ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا’ میں لکھا ہے:
‘میں ماری پور ہوائی اڈے کے وی آئی پی روم میں داخل ہوا تو اسکندر مرزا اور ان کی بیگم ایک صوفے پر بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ ہی ایک کرسی پر ایک جونئیر فوجی افسر اپنی ٹانگیں اس میز کے اوپر پھیلائے بیٹھا تھا جو سابق صدر کے سامنے پڑی تھی چونکہ یہ بدتمیزی کی انتہا اور نامعقول حرکت تھی لہٰذا میں نے اس افسر کو اس کا احساس دلایا اور کمرے سے نکال دیا۔’
اقتدار سے بے دخلی کے بعد جلا وطنی
اسکندر مرزا کو ملک کا پہلا صدر بننے کی عزت راس نہیں آئی اور وہ اپنے سیاسی اعمال کے نتیجے میں پاکستان کے پہلے جلاوطن حکمران بن گئے۔ عوامی مقبولیت سے محرومی کی وجہ سے یہ جبری جلاوطنی تادم مرگ ان کا مقدر بن گئی۔
انگلینڈ میں اسکندر مرزا اور ان کی بیگم کے شب وروز کی ایک جھلک ‘شہاب نامہ’ میں ملتی ہے۔ قدرت اللہ شہاب کی لندن میں اس وقت اتفاقاً ناہید اسکندر مرزا سے ملاقات ہوئی جب وہ سبزی خرید رہی تھیں۔ شہاب نے خیریت دریافت کی اور ان سے گھر کا پتا اور فون نمبر لیا۔
ہوٹل واپسی پر قدرت اللہ شہاب نے ایوب خان کو بیگم مرزا سے ملاقات کا احوال سنایا جس پر بقول شہاب ایوب خان کے ہونٹوں پر کینہ پرور مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ بولے:
‘ اچھا تو بیگم صاحبہ اب ٹوکری اٹھائے سبزی خریدتی پھر رہی ہیں ۔ ایک زمانے میں ان کا دماغ اتنا بگڑا ہوا تھا کہ وہ پاکستان کی ملکہ بننے کے خواب دیکھا کرتی تھیں۔’
ایوب خان کی اجازت سے شہاب، اسکندر مرزا سے ملنے گئے۔ملاقات سے ان کے اخذ کردہ تاثر کا نچوڑ ان لفظوں میں سمٹ آیا ہے:
‘کراچی کے ایوان صدر میں تین ساڑھے تین برس داد عیش دینے کے بعد لندن میں کسمپرسی کی زندگی کا دونوں میاں بیوی کے لیے سوہان روح ثابت ہونا ایک لازمی اور قدرتی امر تھا۔’
لندن کے شب وروز
1976 میں اسکندر مرزا کی یادداشتیں ہفت روزہ معیار میں تیرہ اقساط میں شائع ہوئیں جن کا اردو ترجمہ اشرف شاد نے کیا تھا۔ 2019 میں معروف محقق ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے تدوین کے بعد انہیں کتابی صورت میں شائع کیا ۔
ان یادداشتوں میں اسکندر مرزا نے ایک جگہ اپنے معمولات زندگی کا ذکر کچھ یوں کیا ہے:
‘… میرے پاس کچھ زیادہ کام نہیں ہے۔ گرمیوں میں کرکٹ دیکھ کر لطف اٹھاتا ہوں۔ برج کھیلتا ہوں، دوستوں سے ملاقاتیں کرتا ہوں۔ میرے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں کہ مجھے زیادہ سفر کرنے کی اجازت دے سکیں لہٰذا قدرتی طور پر میں ماضی کے بارے میں بہت کچھ سوچتا ہوں کہ واقعات نے یہ رخ کیوں کر اختیار کیا تھا۔’
اسکندر مرزا ماضی کے بارے میں سوچتے ضرور تھے لیکن ان کا ظرف اتنا نہیں تھا کہ اپنی بد اعمالیوں کا اعتراف کرتے۔ وہ اپنی زندگی کے آخری دور میں بھی اپنے اقدامات کی الٹی سیدھی تاویلیں کرتے رہے۔ جمہوریت سے نفور، صدارتی نظام پر اصرار، ایوب خان کی ایکسٹینشن کا دفاع، سیاست دانوں کی بدخوئی اور مارشل لا کو ناگزیر اور جائز ثابت کرنے کا سودا ان کے سر میں سمایا رہا اور اس سر سے بوئے سلطانی نہیں گئی۔
انہوں نے اعتراف کیا بھی تو بس اپنی مردم ناشناسی کا کیا ۔ ٹائمز میں ایوب خان کی کتاب ‘فرینڈز ناٹ ماسٹرز ‘کے اقتباسات شائع ہونے پر انہوں نے اخبار کے نام خط میں بتایا:
‘ میری سب سے بنیادی غلطی یہ تھی کہ میں نے ان اشخاص پر بھروسہ کیا اور مدد کی جنہیں میں بیس سال سے جانتا تھا ،میں انہیں قابلِ اعتبار دوست سمجھتا تھا۔’
ان کا اشارہ ایوب خان کی طرف ہے جن کا اپنی تعریف سے مملو خط بھی ٹائمز کے نام مراسلے کا حصہ ہے۔ لیکن اقتدار کی جنگ میں ان خطوط کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اس میں تو خونی رشتوں اور سر عام وفاداری کے اعلانات کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔
ایوب خان کے دور میں اسکندر مرزا نے پاکستان آنے کا نہیں سوچا البتہ یحییٰ خان کے حکومت سنبھالنے کے بعد 1969 میں انہوں نے پاکستان آنے کی کوشش ضرور کی لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور اسکندر مرزا 13 نومبر 1969 کو بزم جہاں سے رخصت ہو گئے۔
جلا وطنی کے بعد زندگی بھر ان کے لیے پاکستان کے دروازے بند رہے اور مرنے کے بعد بھی انہیں وطن میں دو گز زمین نہ ملی۔ انہیں ایران میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا لیکن:
نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انھوں کا
جن لوگوں کے کل ملک یہ سب زیر نگیں تھا
میر تقی میر