عوام پر ظلم، مگر کب تک؟

ہفتہ 30 مارچ 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں آنے والی ہر نئی حکومت کی اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ بیرونی قرض کیسے حاصل کرنا ہے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ وہ خودکشی کرلیں گے مگر قرض نہیں لیں گے، مگر یہ نہیں بتایا کہ نظام چلانے کے لیے آمدن کہاں سے آئے گی۔

انہوں نے اپنے سپورٹرز کو یقین دلایا کہ ‘چور’ سیاستدانوں سے لوٹ مار کے اربوں ڈالر واپس نکلوائیں گے اور آئی ایم ایف کے منہ پر ماریں گے اور ملک کو بیرونی قرضوں کے شکنجے سے نجات دلائیں گے۔

ان کے سپورٹرز آج بھی ان کی کہی ہر بات کو سچ مانتے ہیں، پھر ڈیم کا منصوبہ تیار کیا گیا کہ عوام اور بالخصوص بیرون ملک مقیم پاکستانی عمران خان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور وہ ڈیم فنڈز میں اربوں ڈالر اکٹھے کرسکتے ہیں۔ کرپشن کا ایک پیسہ وصول ہوا نہ ڈیم فنڈز کا منصوبہ کامیاب ہو سکا۔

عمران خان حکومت سنبھالتے ہی چند ماہ اسی گھن چکر میں پھنسے رہے اور حالات خراب تر ہوتے گئے۔ جب آئی ایم ایف کے پاس گئے تو انہوں شرائط مزید سخت کردیں اور چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی مہنگا قرض لینا پڑا۔ پھر کیا تھا خان صاحب دوست ملکوں سے قرض لے کر عوام کو خوشخبریاں سناتے رہے۔

 ایسا ہی حال ہر حکومت کا ہے۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ قرض لے کر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔

کوئی منصوبہ بندی نہیں کہ آمدن میں کیسے اضافہ کرنا ہے، حکمران خود ہر قسم کی عیاشی اور سہولتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

بیرون ملک دورے کرتے ہیں اور عوام کے لیے مہنگائی کے پہاڑ کھڑے کرتے ہیں۔آج یہ صورت حال ہے کہ عوام کی بس ہوگئی ہے اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

جو حیثیت رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کو بیرون ملک بھیج رہے ہیں، ایسے بھی خاندان ہیں جو اپنی جائیداد بیچ کر ترقی یافتہ ملکوں میں ‘پناہ’ لے رہے ہیں۔

شاید انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ یہ ملک چلانا اور عوام کے مسائل حل کرنا یہاں کی اشرافیہ، سیاستدانوں اور مقتدرہ کے بس میں نہیں یا پھر ان کی ترجیح ہی نہیں۔

کئی دہائیوں سے حکمرانی کرنے والے اب بتا رہے ہیں کہ ایف بی آر کے افسر 2 ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرتے ہیں تو 6 ہزار ارب اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں۔

ٹیکس کا نظام ٹھیک کرنے میں ناکامی پر ٹیکس، بجلی، گیس چوری کا سارا بوجھ عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگا کر ڈالا جاتا ہے۔ ہر شعبے میں چوری اور کرپشن روکنے میں ناکامی نے اداروں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔

یہی سیاسی جماعتیں کوٹے پر سرکاری محکموں میں بھرتیاں کراتی رہی ہیں اور اب وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ قرض لے کر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں۔ کئی محکموں میں پینشن کی ادائیگی کے لیے فنڈز دستیاب نہیں اور پینشن اصلاحات کی بات ہو رہی ہے۔

سیاسی کوٹہ سسٹم آج بھی جاری ہے، ایک طرف رونا رویا جا رہا ہے کہ گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور لاہور، پشاور، کراچی جیسے شہروں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے اور دوسری طرف دیہات میں سیاسی کوٹہ کے تحت نئی پائپ لائنیں بچھائی جا رہی ہیں۔

گیس چوری روکنے میں ناکام محکمہ سوئی ناردرن اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی نیپرا سے درخواست کر رہا ہے کہ انہیں گیس مہنگی کرنے کی اجازت دی جائے۔

بجلی اور گیس چوری روکنے کے لیے ایف آئی اے کی خدمات لی جارہی ہیں۔ ایف آئی اے کے ایک افسر نے نجی محفل میں بتایا کہ محکمے میں ہر افسر اور اہلکار کی کوشش ہے کہ اس کا تبادلہ بجلی اور گیس کے کیسوں کی چھان بین یا چھاپے مارنے والے ونگ میں کردیا جائے کیونکہ سب سے زیادہ مال پانی میں حصہ انہی محکموں سے ملتا ہے۔

لاہور کے ڈی ایچ اے میں واقع ایک گاؤں میں کھلے عام بجلی چوری ہو رہی ہے۔ چند ماہ قبل بجلی چوری روکنے کی مہم شروع کی گئی تو چھاپے سے قبل ہی لیسکو کے اہلکار گاؤں والوں کو خبردار کر دیتے تھے۔

یعنی انہی جماعتوں نے سرکاری محکموں میں کرپشن اور سیاسی  بھرتیوں کے راستے کھولے اور بڑے بڑے اداروں کو تباہ کیا اور ان کا خسارہ عوام پر ٹیکس لگا کر پورا کیا جاتا رہا ہے۔

حکومتوں میں رہنے والی انہی جماعتوں کے عوامی نمائندے خود گیس اور بجلی چوری میں ملوث رہے اور کسی محکمے کی ہمت نہیں کہ وہ ان کے خلاف ایکشن لے سکے۔

سوئی ناردن میں تعینات ایک افسر نے بتایا کہ محکمے کی ایک ٹیم اطلاع ملنے پر شیخوپورہ اور لاہور کے ممبران قومی اسمبلی گیس کی فیکٹریوں اور گیس اسٹیشن پر چھاپہ مارنے گئی تو اہلکاروں پر شدید تشدد کیا گیا اور انہیں گھنٹوں یرغمال بنا کر محبوس رکھا گیا۔

سوال اٹھنے لگے ہیں کہ کب لوگ اپنے حق کے لیے نکلیں گے کہ سرکار کی نااہلی اور چوری کی سزا انہیں کیوں ملے؟۔

بجلی، گیس سرکار چوری کرائے، ٹیکس چوری کا پیسہ سرکار کھائے، ریلوے جیسے بڑے اداروں کے خسارے سرکار کی نااہلی سے ہوں اور ان نااہلیوں اور چوری کا خمیازہ عوام بھگتیں۔

کئی دہائیوں سے جاری یہ سلسلہ ثابت کرتا ہے کہ تمام حکومتیں اپنی نااہلی اور نالائقی کی سزا عوام کو دے رہی ہے۔ مگر کب تک؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp