لاہور ہائی کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی انسداد دہشت گردی دفعات کےتحت درج 9 مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور کرلی ہے ۔
جسٹس طارق سلیم شیخ کی سربراہی میں جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے عمران خان کی جانب سے حفاظتی ضمانت کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کاجب آغاز ہوا تو اس سے قبل عمران خان کمرہ عدالت میں پہنچ چکے تھے اور اس دوران وکلا نے عدالت کو بتایا کہ انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت 5 مقدمات اسلام آباد 4 مقدمات لاہور میں درج ہیں ۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اپنی چیزوں پر نظرثانی کرنی چاہیے سسٹم کے ساتھ چلیں تو ٹھیک رہتا ہے۔
عمران خان کاموقف
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ مجھ پر اتنے زیادہ کیسز درج ہیں کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آتی کیوں کہ ایک کیس میں ضمانت کراؤ تو دوسرا پرچہ آجاتا ہے اور میرے گھر پر حملہ کیا گیا جیسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں نے کچہری میں سیکیورٹی کی وجہ سے عدالت کو شفٹ کرنے کا کہا تھا کیوں وہ تو ڈیٹھ ٹریپ ہے اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ مناسب سیکیورٹی دے دیں۔اس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ آپ کی جانب سے غلط ہینڈل کیا گیا ہے۔
عمران خان کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی چیئرمین پر درج کیسز کی تعداد 94 ہو چکی ہے اور 6 کیسز مزید درج ہوئے تو یہ سنچری مکمل ہوجائے گی۔
عدالت نے اسلام آباد میں درج 5 اور لاہور میں درج 4 مقدمات میں ضمانت منظور کی ہےاور کل اپنی حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔
عدالت میں سماعت کے دوران جب عمران خان کے وکلاء نے کہا کہ ہمارے پاس پی ٹی آئی چیئرمین پر درج تمام مقدمات کی تفصیل موجود نہیں تو پنجاب حکومت کے وکیل نے مقدمات کی تفصیل فراہم کرنے کے لیے وقت مانگ لیا۔
زمان پارک میں آپریشن کے خلاف درخواست نمٹادی گئی
دوسری جانب زمان پارک میں آپریشن کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ یہ تاثر جا رہا ہے کہ ریاست کی رٹ نہیں ہے ایسی پرابلم دوبارہ نہیں ہونی چاہیے جس پر عمران خان نے کہا کہ ہمارے تو نام میں ہی انصاف ہے اور مجھے 18 مارچ کا معلوم تھا یہ پہلے ہی لینے آگئے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میں پولیس آپریشن والی درخواست نمٹا رہاہوں تو اس موقع پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ رانا ثنااللہ کے بھی وارنٹ جاری ہوئے ہیں ان کا کیا بنا تو جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ وہ کیس جب میرے پاس ہوگا تو دیکھوں گا۔
اس کے علاوہ لاہور میں دفعہ 144 کے نفاذ کے خلاف بھی پی ٹی آئی کی درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹاد ی گئی۔
عمران خان قافلے کے ساتھ لاہور ہائیکورٹ پہنچے
اس سے قبل چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) عمران خان قافلے کے ساتھ لاہور ہائیکورٹ پہنچے اور عمران خان کے وکیل اظہر ایڈووکیٹ نے اپنے موکل کو خطرے کے پیش نظر ان کی بلٹ پروف گاڑی کو احاطہ عدالت میں داخلے کی اجازت مانگی جس کو منظور کرلیاگیا۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے آج کے روز اسلام آباد اور لاہور میں درج 9 مقدمات میں حفاظتی ضمانت کے لیے درخواستیں دائر کی تھیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں آج کیا کچھ ہوا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں پولیس کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ روز اسلام آباد کی سیشن عدالت کی جانب سے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کی درخواست مسترد ہونے کا فیصلہ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پر آج فیصلہ سنادیا گیا۔
سابق وزیرِاعظم پاکستان کی جانب سے عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ‘میں کل خود ہی اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں پیش ہوجاؤں گا اس لیے پولیس کو گرفتاری سے روکا جائے’، جس پر عدالت نے درخواست پر سماعت کرتے ہوئے پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا ہے۔
درخواست پر اعتراضات کا کیا بنا؟ چیف جسٹس کا استفسار
واضح رہے کہ اس سے قبل درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے اعتراضات عائد کیے تھے اور سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ درخواست پر کچھ اعتراضات تھے ان کا کیا بنا؟ جس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ وہ اعتراضات دُور کردیے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے تو کیا اب آپ عدالت میں پیش ہونے کی یقین دہانی کراتے ہیں، جس پر وکیل عمران خان خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت وارنٹ معطل کرے تاکہ میرے موکل کل پیش ہوسکیں۔ اس یقین دہانی پر ہائیکورٹ نے عمران خان کو گرفتاری سے روکتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو سیکیورٹی مہیا کرنے کے احکامات دے دیے۔
میری زندگی کوشدیدخطرات ہیں،عمران خان کی عدالت میں درخواست
یاد رہے کہ اپنے وکیل خواجہ حارث کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ پی ڈی ایم حکومت کے آتے ہی ان پر ملک بھر میں روزانہ مقدمات درج ہورہےہیں۔ وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے لہٰذا ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
ملک بھر میں اپنے خلاف درج مقدمات کے ریکارڈ کی فراہمی کا تقاضا کرتے ہوئے عمران خان نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ پولیس کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتاری سے روکا جائے۔
درخواست میں سیکرٹری داخلہ، چاروں صوبوں کے آئی جی پولیس اور ڈی جی ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا ۔
توشہ خانہ سے متعلق فوجداری کارروائی کے کیس میں اپنے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی منسوخی کی درخواست مسترد ہونے کا فیصلہ بھی عمران خان نے چیلنج کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ وہ کل اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں پیش ہوجائیں گے لہذا ان کا بیان حلفی تسلیم کرکے پولیس کو گرفتاری سے روکا جائے۔
تاہم عمران خان کی وارنٹ منسوخی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے عمران خان کے بائیو میٹرک نہ ہونے سمیت متعدد اعتراضات عائد کیے تھے ۔ دیگر اعتراضات میں کہا گیا تھا کہ جس معاملے پر پہلے ہائیکورٹ فیصلہ کر چکی دوبارہ کیسے سن سکتی ہے اور کسی پٹیشن پر کیسے بلیکنٹ آرڈر جاری کیا جا سکتا ہے؟