کیا حافظ نعیم الرحمن کا انتخاب جماعت اسلامی میں قاضی حسین احمد کا دوسرا جنم ہے؟ ملک کی اہم نظریاتی جماعت میں رونما ہونے والے اس واقعے کی یہ تعبیر انتہائی سادہ ہوگی۔ معاملہ اس سے کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔
جماعت اسلامی کیا تھی، ایک جملے میں اس کا تاریخی اور نظریاتی پس منظر سمیٹا جائے تو یہ ہوگا کہ برطانوی استعمار کے زیر تسلط نظریاتی اعتبار سے قطبین میں بٹے ہوئے بر عظیم میں یہ اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی شعوری کوشش تھی۔
ان میں ایک انتہا سرسید احمد خان تھے جنھوں نے اسلام کی جدید تعبیر عقل کی بنیاد پر کی اور مسلمانوں کو تباہی سے محفوظ رکھنے کے لیے انگریز پر کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم تمھارے دشمن نہیں ہیں۔ دوسری نظریاتی انتہا سر سید کی فکر کا ردعمل تھی یعنی ہم ترقی نہیں کریں گے اور طاقت ہو یا نہ ہو لڑتے مرتے رہیں گے۔ تحریک مجاہدین کی طرح یا 1857 کی ناکام جنگ آزادی کی طرح۔ اس نظریاتی مخمصے کو اقبال نے صاف کیا اور بتایا کہ دین کو بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا اور حکمت کے ساتھ جینا اور راستہ بھی نکالنا ہے۔
مولانا مودودی اقبال کی اسی فکر کی توسیع ہیں۔ اسے علامتی تہذیبی سطح پر سمجھنے کے لیے ہمارے سامنے 3 مظاہر ہیں یعنی قدیم علما اور حکمراں اشرافیہ کی علامت جبے اور پگڑی اور سر سید کی پیدا کردہ روایت کے نتیجے میں رواج پانے والا ہیٹ۔ بر عظیم کے مسلمانوں کی تیسری تہذیبی علامت قراقلی ٹوپی تھی جسے قائد اعظم نے پہنا تو وہ جناح کیپ بن گئی۔ مولانا مودودی نے یہی ٹوپی اختیار کی جو قدیم اور جدید کے درمیان اعتدال اور توازن کی علامت بنی۔ یہی جماعت اسلامی تھی۔
اپنے قیام کے بعد جماعت اسلامی کئی مراحل سے گزری ہے۔ مولانا مودودی اور میاں طفیل محمد کے زمانے کو نظریاتی سطح پر پہلا دور قرار دیا جا سکتا ہے۔ قاضی حسین احمد صاحب کے زمانے کو اس نظریے میں نئی کھڑکی کھولنے کی کوشش قرار دیا جا سکتا ہے جسے میاں طفیل محمد اور مولانا نعیم صدیقی جیسے بزرگ انحراف کا زمانہ بھی کہتے رہے ہیں۔
سید منور حسن اور سراج الحق کے عہد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اول الذکر جماعت کے دور اول کی یازیافت کی شعوری کوشش ہو سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے وہ کوئی گہرا نقش قائم نہ کر سکے۔ کیا سراج الحق قاضی صاحب کا دور نو تھا؟ ممکن ہے کہ بعض لوگ ایسا ہی سمجھتے ہوں لیکن مؤرخ سیاسی اور نظریاتی حوالوں سے اس پر کیا تبصرہ کرے گا، یہ ایک مشکل سوال ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ایک ایسا جواب ہو جو بہت سوں کو مایوس کر دے۔
اس تقسیم کے اعتبار سے جماعت اپنے تیسرے دور کے پہلے قدم پر کھڑی ہے۔ جماعت کو ہر دور میں کئی قسم کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، ان سب سے اہم اور بے رحمانہ تنقید جماعت کے اندر سے ہوئی یا دوسرے الفاظ میں ان لوگوں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا جو اپنی دانست میں بہت سمجھ دار اور نظریاتی اعتبار سے ہمیشہ درست راستے پر گامزن رہے ہیں۔
یہ نہایت پیچیدہ موضوع ہے جس کی تفصیل میں جانے کی صورت میں موضوع سے بھٹکنے کا اندیشہ ہے۔ یہی گروہ ہے جس نے حافظ نعیم الرحمن کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جب وہ فی الاصل کراچی میں اپنی منفرد حکمت عملی کی وجہ سے قومی سطح پر نمایاں ہوئے۔ اس تنقید کو سمجھنا ضروری ہے۔
یہ تنقید 2 پہلو رکھتی ہے۔ پہلا سیاسی ہے۔ سیاست کے ذکر کے ساتھ خود بہ خود یہ بات آ جاتی ہے کہ حافظ نعیم الرحمن جتنا سیاسی ذہن رکھتے ہیں اور مہم جو ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ماحول بنا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ناگزیر ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ ضرور جماعت کا نظریاتی تشخص متاثر کر دیں گے۔ اس کا دوسرا پہلو اخلاقی یا تہذیبی ہے۔ یہ پہلو وہی ہے جس کے لیے انھیں جماعت کے پوسٹر بوائے کا خطاب ملا۔
جماعت اسلامی کی پون صدی کی تاریخ میں حافظ نعیم الرحمن وہ پہلی شخصیت ہیں جو اس خول کو توڑنے میں کام یاب رہے ہیں جس میں وہ بند تھی۔ اس خول کو توڑنے کی کوشش قاضی حسین احمد صاحب نے بھی کی لیکن یہ کوشش بہ وجوہ کام نہیں ہوسکی (یہ کوشش کیوں کام یاب نہ ہو سکی، یہ ایک مختلف موضوع ہے اور تفصیل طلب ہے)۔
گو قاضی صاحب نے عوامی راہ نماؤں جیسا رنگ ڈھنگ اختیار کیا، جماعت کا سخت نظم ضبط نرم کرنے کی کوشش کی، رکنیت کے انتہائی مثالی معیار کو نیچے لانے کی کوشش کی بلکہ نیچے لے آئے لیکن اس کے باوجود نہ وہ خود اور نہ جماعت عام آدمی کے لیے قابل قبول ہوسکی بلکہ حقیقت تو یہ ہے عوامیت اختیار کرنے کی کوششوں کے بارے میں جہاں جماعت کے اندر تحفظات موجود رہے، وہیں عوامی حلقوں میں بھی اسے شک اور شبہے کی نظر سے دیکھا گیا۔ اس ضمن میں حتمی بات یہی ہے اور یہ بات تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ عوامیت اختیار کرنے کی یہ کوشش کام یابی سے ہم کنار نہ ہوسکی۔ اس معاملے میں حافظ صاحب قسمت کے دھنی نکلے ہیں۔
سماجی اور اقتصادی تعلق سے کراچی کثیر پہلو شہر ہے، جہاں کسی ایک خوبی کی بنیاد پر کسی ایک شخصیت کے لیے قبولیت حاصل کرنا آسان نہیں۔ پروفیسر غفور احمد، عبد السّتار افغانی، سید منور حسن اور نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ جماعت کے ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جنھیں بہت مقبولیت ملی لیکن ان سب کے مقابلے میں حافظ نعیم الرحمن کی مقبولیت بہت مختلف ہے۔
شہر کے مختلف حصوں سے واقفیت اور آبادی کے مختلف سماجی اور مالی پس منظر سے ذاتی آگاہی رکھنے کی بنیاد پر ان سطور کا لکھنے والا اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ان کی مقبولیت کا دائرہ، نوعیت اور کیفیت، تینوں پہلو بہت مختلف اور منفرد ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن ایک طرف نوجوانوں کے ایک بہت بڑے طبقے میں مقبول ہیں۔ ان کی مقبولیت کی 5 بنیادیں ہیں جو میں نے کراچی کے مختلف طبقات کے ساتھ رابطوں کے نتیجے میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ 5 باتیں کیا ہیں؟ کراچی کے ایک نوجوان فیضان مظہر نے اسے یوں بیان کیا:
1: وہ اذکار رفتہ نہیں ہیں۔
2: وہ نوجوانوں کو متاثر کرتے ہیں اور انھیں کام یابی کے ساتھ انگیج کرتے ہیں۔
3: کراچی کے حقیقی مسائل کو انھوں نے جس وضاحت اور سلیقے کے ساتھ اٹھایا ہے، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
4: وہ اور ان کی ٹیم اہل اور ایمان دار ہے۔
5: وہ بہت بہادر اور جرات مند ہیں۔
ان ہی 5 خوبیوں نے انھیں کراچی کے شہریوں میں مثالی شہرت اور مقبولیت عطا کی ہے۔ انھیں یہ مقبولیت صرف نوجوانوں میں ہی حاصل نہیں ہوئی بلکہ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے طبقات میں حاصل ہوئی ہے۔ ان میں شوبز کے لوگ بھی شامل ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب غلط یا درست طور پر جماعت میں یہ تصور موجود تھا کہ شوبز ایک ناپسندیدہ شعبہ ہے جس سے متعلق ہونا اور اس کے ساتھ ربط ضبط رکھنا درست نہیں۔ یہ تاثر شاید اس لیے بھی گہرا ہوگیا ہو کہ ایک زمانے میں جماعت کے اندر تصویر کی اجازت بھی نہیں تھی۔ جماعت کی سرگرمیوں کے مواقع پر ذرائع ابلاغ اگر خود دلچسپی لے کر تصویر کشی کر لیتے تو اسے مجبوری سمجھ کر قبول کرلیا جاتا لیکن تشہیری مقاصد کے لیے جماعت کے فنڈ سے اس کے لیے رقم فراہم نہیں کی جاتی تھی۔
ممکن ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رجحان شوبز سے ناپسندیدگی کی طرف چلا گیا ہو۔ شاید یہی سبب ہے کہ حافظ صاحب کے منظر پر ابھرنے سے پہلے اور اب مرکزی امیر منتخب ہونے کے بعد بعض لوگوں کی طرف ان پر سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ جماعت کے مزاج کے برعکس شوبز کے لوگوں سے رابطہ رکھتے ہیں۔
ان لوگوں کا خیال ہے کہ شوبز کے لوگوں سے ربط ضبط اخلاقی قدروں اور دین کی تعلیمات کے منافی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس انداز میں سوچنے والے لوگ اگر بزرگان دین کی سیرت پر نگاہ ڈالیں تو انھیں معلوم ہو گا کہ ان کی صحبت تو طوائفوں تک سے رہی ہے اور اسی صحبت کی برکت سے بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
یہاں 2 باتوں کا ذکر ضروری ہے۔ بعض لوگوں کی طرف سے شوبز کے لوگوں کو اخلاق باختہ قرار دینا نہایت ناپسندیدہ اور حکمت دین کے منافی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی کو گالی بھی دیں اور دین کی تبلیغ بھی کریں۔
تبلیغ دین صرف اور صرف درد مندی اور اخلاص کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ اس ضمن میں دوسرا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ہمارے شوبز سے متعلق لوگ نہایت شاندار سماجی پس منظر رکھتے ہیں۔ یہ لوگ بہت پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور ان کے خاندان بھی نہایت عزت دار اور قابل احترام ہیں۔
حافظ نعیم اگر ان لوگوں کو متوجہ کرنے میں کام یاب رہے ہیں تو یہ ان کی خوبی اور اچھائی ہے نہ کہ اس میں برائی کا کوئی پہلو پوشیدہ ہے۔ حافظ نعیم پر تنقید کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البنا اپنی دعوت لے کر قہوہ خانوں، میلوں ٹھیلوں اور عوامی مقامات پر جایا کرتے تھے جہاں ہر قسم کے لوگ ہوتے تھے۔
اس کے مقابلے میں جماعت کا سکہ بند طریقہ خواص پسند محسوس ہوتا ہے جس کے اثرات واضح ہیں۔ حافظ نعیم کی یہ حکمت عملی امام حسن البنا کے طریقہ کار کی جدید شکل ہے جس پر تنقید غیر ضروری بلکہ غیر دانش مندانہ ہے۔
رہ گیا یہ سوال کہ کیا سیاست میں حافظ نعیم الرحمن کی دلچسپی اور ان کی حکمت عملی جماعت کو مکمل طور پر ایک سیاسی گروہ میں بدل کر تو نہیں رکھ دے گی؟ کسی نظریاتی تحریک یا سیاسی جماعت میں جب بھی کوئی نیا تجربہ کیا جائے گا، اس سے متعلق خدشات ہمیشہ موجود رہیں گے لیکن کوئی تجربہ کتنا غلط اور ضرر رساں ہے، اس کا درست تجزیہ پوری تصویر کو دیکھ ہی کر کیا جا سکتا ہے نہ کہ جزوی طور پر چند پہلوؤں پر حرف سوال اٹھا کر یہ ممکن ہے۔
حافظ نعیم کی سیاسی حکمت عملی کو پسند یا ناپسند کرتے ہوئے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا وہ صرف سیاست کے ہو کر رہ گئے ہیں یا جماعت کے نظریاتی تشخص اور تربیتی پہلو سے بھی ان کا کچھ واسطہ ہے؟ ان کے مرکزی امیر بننے سے پہلے اور بعد کی جو معلومات میسر آئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظریاتی اور تربیتی معاملات ان کی ترجیحات میں ہمیشہ شامل رہے ہیں۔
معتبر ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق کراچی میں ان کے دور امارت میں جتنے تربیتی پروگرام ہوئے ہیں، پچیس 30 برس کے ماضی میں شاید اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے یہاں سیاست اور نظریہ دونوں شانہ بہ شانہ چلتے ہیں۔ جماعت کے نظریاتی تشخص پر زور دینے والے لوگوں کے لیے ان کی شخصیت کا یہ پہلو یقیناً قابل اطمینان ہوگا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حافظ صاحب کی شخصیت کا ہر پہلو قابل تعریف ہے یا کوئی کمزور پہلو بھی ہے؟ حافظ صاحب اپنی جرات مندانہ سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے عوام کی نگاہ میں آنے میں کام یاب رہے ہیں۔ کسی سیاست دان کی سیاست کا ایک نمایاں پہلو اس کا انداز گفت گو ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی تقریروں اور بیانات میں بعض اوقات زیادہ تلخ ہو جاتے ہیں۔
ان کی یہ تلخی کبھی کبھی حکمت کے منافی معلوم ہوتی ہے۔ سبب یہ ہے کہ جماعت صرف کسی ایک طبقے یا سماجی یا لسانی پس منظر رکھنے والے لوگوں کی جماعت نہیں ہے۔ اس کا دائرہ قومی سطح پر بہت وسیع ہے لہٰذا اس کے مرکزی امیر کا انداز گفت گو بھی اسی کے مطابق، پختہ اور باوقار ہونا چاہیے۔
کیا وہ اپنی نئی ذمے داری کا یہ نیا تقاضا پورا کر پائیں گے؟ یہ اندازہ تو آنے والے دنوں میں ہی ہو سکے گا لیکن ان کے مزاج، توانائی اور سیاسی زندگی کے تخلیقی پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ ان کا دور جماعت کے لیے یادگار ہوگا اور وہ ایک عہد سے نکل کر جدید عہد میں نہ صرف داخل ہو جائے گی بلکہ خود اپنے اور ملک کے لیے بھی مفید کردار ادا کرسکے گی۔