ٹھیک 29 برس پہلے 16 اپریل 1995 کو وسطی پنجاب کےقصبے مریدکے کے نواحی علاقے میں 3 بچے سائیکل پر لہراتے ہوئے جارہے تھے۔ 2 گولیاں چلیں اور ان میں سے ایک 12 سالہ بچہ ٹھنڈا ہوگیا۔ زیادہ تر لوگوں کو اب تک شبہ ہے کہ یہ ایک معمولی پس منظر کے غیر معمولی بچے کی ٹارگٹ کلنگ تھی۔
اس بچے کی موت پر یقیناً کچھ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہوگا مگر پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے اسے ایک المیے کے طور پر اپنے ذہنوں میں محفوظ کرلیا اور رفتہ رفتہ یہ بچہ جبری مشقت کے خلاف عالمی جدوجہد کا ایک استعارہ بن گیا۔
یہ اقبال مسیح ولد سیف مسیح تھا۔ والد معمولی مزدور اور والدہ عنائیت بی بی گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرنے والی۔ بیمار والدہ کے علاج معالجے کے لیے پیسے چاہیے تھے۔ چنانچہ 4 سالہ اقبال کو ایک قالین فیکٹری کے مالک کے پاس رہن رکھوا دیا گیا اور اس کے عوض مبلغ 600 روپے پیشگی قرض لکھوا دیا گیا۔
اتنی قلیل رقم میں بنیادی انسانی آزادی تو بیچی جاسکتی ہے، علاج بھلا کہاں ملتا ہے۔ ناخواندہ خاندان پر قرض چڑھتا گیا۔ اس قرض میں مالک بہانے بہانے سے مزید رقم جوڑتا چلا گیا۔ جیسے اقبال مسیح کی قالین بافی کی ایک سالہ ابتدائی تربیت کا خرچہ، کھان پان کے اخراجات، اوزاروں کا کرایہ، چھوٹے موٹے نقصانات اور مزید پیشگی قرض کی مد میں مل ملا کے 13 ہزار روپے چڑھا دیے گئے۔
اس مسلسل بوجھ کو اتارنے کے لیے اقبال مسیح سے 14،14 گھنٹے مشقت کروائی گئی مگر وہ اکیلا غلام نہ تھا۔ بیسیوں اور بچے بھی اس عذاب سے گزر رہے تھے۔ مزید یہ کہ ان بچوں کو ناکافی غذا دی جاتی تاکہ ان کی جسمانی نشوونما کنٹرول میں رہے۔ کیونکہ قالین کی گرہ بندی کے لیے بڑے ہاتھ موزوں نہیں ہوتے۔ اس کے لیے ننھے ننھے نازک ہاتھوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
نتیجتاً جب 8 سالہ اقبال مسیح اس جہنم سے دوسری بار اکتوبر 1992 میں فرار ہو کر بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ (بی ایل ایل ایف) کے اسکول پہنچا تو اس کا وزن نارمل بچے جتنا نہیں بلکہ 6 برس کے بچے کے برابر تھا۔ قد بھی عمر کے اعتبار سے بڑھنے کے بجائے 4 فٹ پر رک گیا۔
مگر اقبال کی ذہنی نشوونما پر اس عذاب کا اثر نہیں پڑا اور اس نے کم سنی کی غلامی سے بھاگ کر آنے والے بچوں کے اس اسکول میں 4 سال کی تعلیم 2 برس میں ہی مکمل کرلی۔ پھر وہ بچوں کی جبری مشقت کے خلاف جدوجہد کا پوسٹر بوائے بن گیا۔
دنیا کو اس ظلم سے آگاہ کرنے کے لیے اس نے بانڈڈ لیبر کے خلاف تحریک کے پلیٹ فارم سے مغربی ممالک کا دورہ کیا۔ اس نے امیر دنیا سے ایسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی جن کی تیاری میں بچوں کی جبری مشقت شامل ہو۔ اس مہم کا پاکستان کی قالین بافی کی صنعت پر وقتی طور پر خاصا منفی اثر پڑا۔ کئی بین الاقوامی آرڈرز منسوخ ہوگئے۔ حکومت نے بدنامی سے بچنے کے لیے قانون سازی پر بھی غور شروع کردیا۔
قدرت غالباً اقبال مسیح سے بس اتنا ہی کام لینا چاہ رہی تھی۔ جب وہ اکتوبر 1994 میں سویڈن اور دسمبر میں امریکا کا دورہ کرکے اور اپنی جدوجہد کے اعتراف میں ایوارڈز لے کر وطن لوٹا تو جبری مشقت کی پروردہ مافیا نے اس 12 سالہ بچے پر بطور ایک بقائی خطرہ توجہ دینا شروع کی۔ اور 16 مارچ کو یہ کمسن آواز خاموش کردی گئی۔
جنازہ بہت بڑا تھا۔ لاہور میں جبری مشقت کے خاتمے کے مطالبے کے حق میں 3 تا 5 ہزار متاثرین کا جلوس نکلا۔ آدھے شرکا اینٹوں کے بھٹوں اور قالین کی صنعت میں کام کرنے والے بچے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اقبال مسیح کی جدوجہد سے لگ بھگ 3 ہزار بچوں کو غلامی سے وقتی نجات ملی۔ مگر غربت کی غلامی سے وہ پھر بھی آزاد نہ ہوسکے۔
بانڈڈ لیبر کے خلاف جدوجہد پر جوابی وار شروع ہوئے، کرپشن اور ملک کو بدنام کرنے کی سازش کے الزامات لگے اور اس جدوجہد میں نفاق پیدا کرنے کی کوششیں ہر سطح پر تیز تر ہوتی چلی گئیں مگر اقبال مسیح کو بہرحال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس کی شہادت کے بعد ہی پاکستان میں وفاقی و صوبائی سطح پر کمسن بچوں کی مشقت کو جرم قرار دینے کے سلسلے میں بظاہر موثر قانون سازی ہوئی۔
امریکی کانگریس نے 2009 میں اقبال مسیح کے نام سے ایک ایوارڈ کا اجرا کیا۔ جب 2014 میں بھارت میں جبری مشقت کے خلاف تحریک کے سرکردہ رکن کیلاش ستھیارتھی کو نوبل انعام ملا تو انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اقبال مسیح کی جدوجہد کا بطورِ خاص ذکر کیا۔
اقبال پر ملکی و بین الاقوامی سطح پر چند دستاویزی فلمیں بھی بنیں۔ کچھ سڑکوں اور چوکوں کے نام بھی اس پر رکھے گئے۔ اپنے وطن میں بس اتنا ہوا کہ حکومتِ پاکستان نے اس کی شہادت کے 27 برس بعد تمغہِ شجاعت سے نواز دیا۔
پاکستان میں قانون سازی تو خوب ہوگئی لیکن اس قانون سازی کا کوئی ٹھوس نتیجہ بھی نکلا یا اقبال مسیح محض ایک اور یادگاری علامت بن کے رہ گیا؟
اب سے 5 ماہ قبل وفاقی محکمہ شماریات کی جانب سے سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق اس وقت بھی پاکستان میں 10 سے 14 برس کی عمر کے 6 لاکھ 93 ہزار بچے زرعی شعبے میں اور تقریباً 25 ہزار بچے اینٹوں کے بھٹوں پر مشقت کررہے ہیں۔ اس شماریات میں وہ ہزاروں بچے شامل نہیں جو شہروں اور قصبوں کے گھروں، ریستورانوں اور ورکشاپوں میں بطور ’چھوٹا‘ بیگار پر مامور ہیں۔
حالانکہ 2014 سے اب تک بننے والے تمام وفاقی و صوبائی قوانین کے تحت 15 برس سے کم عمر کے بچے سے محنت مزدوری کروانا قابلِ تعزیر جرم ہے۔ جبکہ جان جوکھم میں ڈالنے والے خطرناک کاموں کو 18 برس سے کم عمر کے بچوں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ مگر یہ کون سمجھائے کہ جبری مشقت اور غربت سگی بہنیں ہیں۔ قوانین پر عملدرآمد کی ذمہ داری ایف آئی اے اور پولیس کی ہے۔
(جب اقبال مسیح پہلی بار قالین فیکٹری سے بھاگ کر راستے میں پڑنے والے پہلے تھانے میں پہنچا تو تھانے والوں نے اسے کسی پناہ گاہ میں پہنچانے کے بجائے دوبارہ اسی قالین فیکٹری کے مالک کے حوالے کردیا۔ مالک نے اسے زنجیروں سے باندھ کے کام پر لگا دیا۔ دوسری بار اقبال مسیح فرار ہونے کے بعد تھانے نہیں گیا بلکہ سیدھا بانڈڈ لیبر کے خلاف کام کرنے والی تنظیم کے پاس پہنچ گیا۔ اگر ایسا نہ کرتا تو شاید اس کی کہانی بھی ہم تک نہ پہنچتی)۔