ایک دن صبح آپ نیند سے بیدار ہوتے ہیں۔ حسب ِ عادت یہ دیکھنے کے لیے فون اُٹھاتے ہیں کہ کوئی اہم پیغام یا کال تو نہیں آئی۔ آپ دیکھتے ہیں کہ کسی نئے وٹس ایپ گروپ میں آپ کو شامل کیا جا چکا ہے۔ دیگرکئی متحرک واٹس گروپس میں صبح بخیر کے علاوہ مذہبی دعاؤں کے درجنوں پیغامات کے ساتھ ساتھ ویڈیوز، ٹک ٹاک اور یو ٹیوب کے لنکس کی بھر مار ہے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ مذ کورہ نو مولود گروپ میں درجنوں بے معنی یا جن سے آپ کوئی تعلق نہیں ایسے میسج آ رہے ہیں اور مسلسل آئے ہی جا رہے ہیں۔
بعض اوقات تو ایسے احباب آپ کو گروپ میں شامل کر لیتے ہیں جن سے آپ کا احترام کا رشتہ ہوتا ہے اور آپ مروتاً گروپ نہیں چھوڑتے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اکثر آپ کو وہ لوگ بھی کسی گروپ میں شامل کر لیتے ہیں جن سے آپ کی شناسائی بھی نہیں ہوتی۔ اسی طرح کچھ ایسے مہر بان ہیں جو آپ کو بلا ناغہ صبح بخیر اور شب بخیر کے پیغاما ت بھیجنے پر تُلے بیٹھے ہوتے ہیں۔
یہ معاملہ محض کسی ایک ایپ پر نہیں جہاں کہیں بھی کسی کی آپ تک رسائی ہوتی ہے وہ پہنچ ہی جاتا ہے۔
فیس بُک پر بھی ایسے ہی بہت سے گروپس میں آپ کو شامل کر لیا جاتا ہے۔ لیکن فیس بُک پر سب سے بڑی بیماریاں ٹیگ کرنا اور ان باکس میں پیغامات کا سلسلہ ہے۔ ہزاروں لوگ آپ کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی آپ سے ذاتی یا کسی دوسرے کے نام پر امداد مانگ لے گا۔ عموماً یہ رقم پانچ ہزار تک ہوتی ہے۔ سو لوگوں کو پیغام بھیجا جائے تو دس کے قریب تو آپ کو پیسے بھیج ہی دیں گے۔ بہت سے بجائے سیدھا پیغام بھیجنے کے پہلے آپ سے راہ رسم بڑھائیں گے۔
پہلے سلام آئے گا۔ پھر آپ جواب دیں گے۔ آپ لاگ آؤٹ ہو گئے۔ دوبارہ جب لاگ ان ہوئے تو پھر میسج ہوگا۔ کیسے ہیں؟آپ جواب میں کہیں گے ٹھیک ہوں۔
ایک دو دن تک یہ گفت گو کسی نتیجے پر اس طرح پہنچے گی کہ یا آپ سے نمبر مانگا جائے گا یا مدعا بیان کیا جائے گا۔ او بھئی پہلی دفعہ ہی بات بتائیں۔ اتنی لمبی چوڑی خط کتابت کی کیا ضرورت ہے؟
اگر آپ جواب نہیں دیں گے تو آپ خود بھی محسوس کریں گے کہ یار کسی کے سلام کا جواب نہ دینا تو بد تہذیبی ہے۔ ویسے دوسرا کم از کم مغرور کا لقب ضرور آپ کو دے گا ہی۔
ایک اور بہت مزے کی صور تِ حال ہوتی ہے جب آپ کا کوئی کلاس فیلو یا پرانا واقف کہیں سے نمبر لے کر آپ کو فون کرے اور بے تکلفی سے گفت گو شروع کر دے اور آپ ہوا میں ٹامک ٹوئیاں مارنا شروع کر دیں گے کہ فون کرنے والے کون صاحب ہیں؟جب کچھ سمجھ نہ آئے تو آپ پوچھ بیٹھیں کہ ” میں نے پہچانا نہیں” پھر آپ کو ایک روائتی ڈائیلاگ سُننے کو ملے گا ” اب آپ نے کیوں پہچاننا ہے۔ آپ بڑے آدمی بن گئے ہیں۔ ”
اس حوالے سے میرا یہ خیال ہے کہ دوسرا وقت کے اسی دائرے میں کھڑا ہے جب وہ پانچویں میں آپ کے ساتھ پڑھتا تھا۔ وہ بھولا نہیں جانتا کہ پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چُکا ہے۔ آپ کی زندگی میں ہزاروں نئے کردار شامل ہو چکے ہیں اور حیاتی نہ جانے کن کن خانوں میں بٹ چکی ہے۔
ایک مضحکہ خیز صورتِ حال تب پیدا ہوتی ہے جب آپ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہے ہوں اورکوئی سواری اپنے موبائل پر میوزک لگا دے۔ اب میوزک چھوٹے اسپیکر پر لگا ہو اور وہ آپ کو بہت اذیت دیتا ہے، چونکہ نہ وہ سمجھ آتا ہے نہ آپ اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ سلجھے ہوئے لوگ ایسے مواقع پر ہیڈ فون وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح کا معاملہ تب بنتا ہے جب کوئی فون پر اونچی آواز میں بھاؤ تاؤ یا ذاتی گفت گو شروع کر دیتا ہے۔ ایسی صورتِ حال کو سنبھالنے کے لئے فوریا فائیو سٹار ہوٹلز کی لابیز اور کیفیز میں دھیما سا میوزک بج رہا ہوتا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کی آوازیں آپ کی گفت گو میں مخل نہ ہوں۔ یا آپ کی گفت گو دوسروں کی بیزاری کا باعث نہ بنے۔
علاوہ ازیں ڈیجیٹل فراڈیے بھی مختلف انداز میں آپ پر حملہ آور رہتے ہیں۔ کبھی بنک کا نمائندہ بن کر اور کبھی کسی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی کا اہل کار۔ یہ لوگ اس طریقے سے انسانی نفسیات سے کھیلتے ہیں کہ بڑے بڑے سمجھ دار لوگ بھی ان کا شکار بن جاتے ہیں۔ اگر کوئی سروے یا ایسا طریقہ کار ہو جس سے پتا چلایا جا سکے کہ کتنے لوگ ایسے ڈیجیٹل فراڈ کا شکار ہو چکے ہیں تو حیرت انگیز اعداد و شمار سامنے آنے کی توقع ہے۔
کسی نے کیا خوب بات کہی تھی کہ جب تک لالچی لوگ زندہ ہیں فراڈیوں کا کام چلتا رہے گا۔ آن لائن شاپنگ بھی ایسا ہی کام ہے۔ کچھ تو معیاری ساکھ والے نام ہیں جو وہی چیز بھیجتے ہیں جو آپ کو نظر آتی ہے۔ مگر بہت سے فراڈیے بھی اس میدان میں سر گرم ہیں۔
ڈیجیٹل دنیا میں اب آپ کی سب سے بڑی ضرورت موبائل فون ہے۔ کہا جاتا ہےکہ آپ کے بارے میں سب سے زیادہ آپ کا موبائل فون جانتا ہے۔ موبائل فون جہاں آپ کے لئے بہت سی آسانیاں اور سہولیا ت لایا ہے وہا ں یہ آپ کا بہت بڑا سر درد بھی بن چُکا ہے۔
موبائل فون کا استعمال ہماری عادت ثانیہ بن چُکا ہے۔ دن میں جہاں یہ ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتا وہاں یہ رات کو کو بھی سرہانے پڑا رہتا ہے۔ ہم ہر چند ثانیوں بعد لا شعوری طور پر موبائل ہاتھ میں تھام کر کوئی نہ کوئی ایپ کھول لیتے ہیں۔
بعض اوقات کوئی مسیج کرنا ہے یا کال مگر ہم کسی ایک ایپ میں ایسے گُم ہوتے ہیں کہ بنیادی کام ہی بھول جاتے ہیں۔
ایک رات اپنے بستر پر ٹیک لگائے کتاب پڑھ رہا تھا۔ چند لائنیں پڑھیں تو سائیڈ ٹیبل پر رکھا فون اُٹھا لیا۔ باری باری سب ایپس چیک کیں ۔ قریبا ً آدھے گھنٹے بعد فون رکھ کر دوبارہ کتاب پڑھنے لگا۔ ابھی چند منٹ ہی پڑھا ہوگا کہ بے ساختہ ہاتھ فون کی طرف بڑھا۔ خود سے سوال کیا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے سب کچھ دیکھا ہے ابھی چند لمحوں بعد ایسا کیا ہو گیا ہے کہ پھر فون کی ضرورت پڑ گئی۔
دراصل یہ ضرورت نہیں عادت تھے جس کے ہم سب شکار ہوچکے ہیں۔ جدید بد تہذیبی میں صرف دوسرے نہیں ہم خود بھی برابر کے شراکت دار ہیں۔