غزہ میں اسرائیلی فوجی حملے کیخلاف نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے طلبا کی جانب سے جاری احتجاج میں شامل ہندوستانی طلباء نے کیمپس میں فلسطین کے حق میں احتجاج کرتے ہوئے اردو میں ‘آزادی’ کے نعرے لگائے، جس کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
اتوار 21 اپریل کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گردش کرنے والی ویڈیو میں ایک طالبہ کو فلسطین کی حمایت میں نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ اس کے ساتھی مظاہرین لو میموریل لائبریری کے سامنے کورس میں ‘آزادی’ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
’ہم کیا چاہتے ہیں، آزادی… فلسطین کی آزادی… ارے چھین کے لیں گے آزادی…ہے حق ہمارا آزادی… ہم کیا چاہتے ہیں… آزادی… فلسطین کی آزادی… ہم اس آزادی کو چھینیں گے جو ہمارا حق ہے۔‘ ویڈیو میں ایک خاتون کو نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، وہ مسلسل نعرے لگاتی رہیں۔’بائیڈن سن لے، آزادی! نیتن یاہو سن لے، آزادی! مودی سن لے، آزادی۔‘
"Azadi" chant at Columbia University for Palestine. pic.twitter.com/kr7FoBJ8NQ
— Broufus (@Broufus) April 21, 2024
کولمبیا یونیورسٹی کے طلبا گزشتہ بدھ صبح 4 بجے سے کیمپس میں ’غزہ یکجہتی کیمپ‘ احتجاج کر رہے ہیں، اور یونیورسٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے منافع کا دعویٰ کرنے والی کمپنیوں سے علیحدگی اختیار کریں۔
اس احتجاج کے دوران دلچسپ صورتحال اس وقت دیکھنے میں آئی جب چند ہندوستانی طلبا نے اپنے روایتی جوشیلے انداز میں اردو میں ’آزادی‘ کے نعرے لگائے جو اس سے قبل بھارت میں یا تو کشمیری حریت پسندوں نے بلند کیے تھے یا پھر جن کی باز گشت چند برسوں قبل دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبا کے احتجاج کے دوران ایک دوسرے انداز میں سنائی دی تھی۔
کولمبیا یونیورسٹی میں طلبا کے اس انداز سے احتجاج وائرل ویڈیو پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر نئی بحث کو جنم دیا، صارف بینش احمد نے لکھا کہ آزادی کے یہ کشمیری نعرے چرانے والے یہ سب ہندوستانی اس وقت کہاں تھے جب کشمیر کو چھینا جارہا تھا، ایس مریم کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا نے ’آزادی‘ کا نعرہ کشمیر سے سیکھا لیکن ابھی تک کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور حق خودارادیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
تاہم ایک صارف نے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’دہشت گردوں کا یہ نعرہ‘ کچھ اتنا شاندار یا جرات آموز نہیں ہے، جس نے کشمیر میں ہزاروں ہندوؤں کو ہلاک کیا ہے، انڈین فرسٹ نامی ایک صارف نے اسے جارحانہ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ یہ نعرہ مطلب کے اعتبار سے نہیں بلکہ نسل کشی کے مترادف کے طور پر انتہائی جارحانہ تھا۔
اس ضمن میں براؤفس نامی صارف نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ آزادی کے نعرے یقیناً ’قبضے، جبر، ظلم و ستم اور استعمار‘ سے آزادی کے مطلب میں استعمال ہوئے ہیں، انہوں نے ایک اور صارف کی جانب سے یہودیوں کو اسرائیل کی وراثت کے معاملے پر لکھا کہ یورپ سے آنیوالوں کو یورپ جانا چاہیے۔