‘انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن ہمیں پتا ہے کہ انصاف نہیں ملے گا۔ انصاف نہیں تو کم از کم معافی مانگیں اور اپنی غلطی تسلیم کریں۔’
یہ الفاظ ہیں اپر جنوبی وزیرستان کے دور افتادہ اور انتہائی پسماندہ علاقے زنگاڑہ کے رہائشی شفقت اللہ کے جو 15 مارچ کو اپنے 6 سالہ بیٹے الحام اللہ کو کھو بیٹھے۔
الحام اللہ اپنے ہم عمر کزن شاہد اللہ کے ساتھ گھر کے قریب کھیل رہا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا نشانہ بن گیا۔ واقعے کے بعد پورے علاقے میں غم کا سماں اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ چہروں پر پریشانی، بے چینی اور خوف منڈلا رہا ہے۔
جنوبی وزیرستان میں تحصیل لدھا کا گاؤں زنگاڑہ شمالی وزیرستان کی سرحد پر واقع پسماندہ علاقے اور صدر مقام سے 5 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ ضلع بھر سے لوگ تعزیت کے لیے علاقے کا رخ کر رہے ہیں۔ علاقے میں ٹیلی فون، موبائل یا انٹرنیٹ کی سہولت بھی نہیں۔
اہلِ علاقہ اور غمزدہ خاندان شکوہ کناں ہے کہ حکومتی نمائندے ان کے دکھ میں شریک ہوئے اور نہ ہی کسی نے یہ بتانے کی زحمت کی کہ واقعہ کیوں اور کیسے پیش آیا؟
‘ہمارے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوا اور کوئی حکومتی عہدیدار پوچھنے نہیں آیا کہ آخر ہوا کیا ہے،’ غم سے نڈھال شفقت اللہ نے تعزیت کے لیے آئے ہوئے لوگوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بارود کی بُو اور اسلحہ یہ سب حکومت کے تحفے ہیں۔
شفقت اللہ بتاتے ہیں کہ وہ مدرسے میں تھے کہ انہیں واقعے کی اطلاع ملی۔ انہوں نے بتایا کہ ‘جب میں پہنچا تو سب کچھ ختم ہوچکا تھا اور میں نے اپنے بیٹے کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔ حملے میں بیٹے کے ساتھ بھتیجا شاہد اللہ بھی شہید ہوگیا جو یتیم تھا’۔
سانحے پر بات کرتے ہوئے وہ نڈھال ہوجاتے ہیں۔ کرب کی شدت ان کے چہرے پر عیاں ہوتی ہے۔ خود کلامی کرتے ہیں کہ ’ہمارے ساتھ بہت ناانصافی ہوئی، آخر میرے 6 سال کے معصوم بچوں کا کیا قصور تھا؟’
مقامی لوگوں کے مطابق 15 مارچ کی شام 5 بجے گاؤں میں حسبِ معمول خاموشی تھی۔ ہر کوئی اپنے معاملات میں مصروف تھا۔ مرکزی سڑک کے ساتھ آبادی اور دکان کے سامنے 2 بچے کھیل رہے تھے کہ اچانک ایک زوردار آواز آئی اور بعد میں 3 مختلف مقامات پر بھی ایسا ہی ہوا۔
مقامی افراد پہنچے تو 2 بچے خون میں لت پت تھے جنہیں فوراً لدھا (اپر جنوبی وزیرستان کا ہیڈ کوارٹر) کے بنیادی مرکز صحت منتقل کیا گیا۔ میڈیکل اسٹاف نے خون صاف کرکے لاشیں واپس کردیں۔
شفقت اللہ نے بتایا کہ ‘سڑک سے ذرا اوپر ہمارا گھر اور دکان ہے، بچے دکان کے سامنے کھیل رہے تھے’۔ انہوں نے حکومتی موقف کو غلط قرار دیا کہ ‘فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ ہو رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں پورا علاقہ گواہ ہے اچانک اوپر سے کچھ گرا اور دھماکا ہوا۔ سب کو سچ بتانا چاہیے’۔
معصوم بچوں کی نمازِ جنازہ 16 مارچ کی صبح ادا کرکے انہیں سپردخاک کردیا گیا۔ جنازے میں مقامی افراد بڑی تعداد میں شریک ہوئے اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔
زنگاڑہ کے علاوہ دیگر علاقوں سے بھی لوگ جنازے میں آنا چاہتے تھے لیکن انہیں روکا گیا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ آخر حکومت نے لوگ کو شرکت کرنے سے کیوں روکا؟
شفقت اللہ نے کہا ‘2013ء میں آپریشن کے بعد علاقے کو کلئیر کردیا گیا تھا مگر اب اچانک ایک بار پھر یہاں دہشتگرد کہاں سے آئے مقامی افراد کی سمجھ سے باہر ہے۔ ہم سخت جان قبائلی ہیں اور ہر مشکل کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن اس واقعے نے پورے علاقے کو ہلاکر رکھ دیا ہے’۔
علاقہ مکین شاہ فیصل غازی نے وی نیوز کو بتایا کہ ‘بچوں کی شہادت کے بعد خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوگیا ہے‘۔ جمعیت علما اسلام (ف) اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے واقعے کی مذمت کی اور حکومت سے حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کیا۔
جمعیت علما اسلام کے مقامی رہنما حافظ حسام الدین نے کہا کہ قبائیلیوں کے پرانے زخم تازہ ہوگئے ہیں۔ یہ پہلا واقعہ نہیں کہ ہم نے بے گناہ اور معصوموں کا جنازہ اٹھایا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اب ایسا لگ رہا ہے جیسے بدامنی اور دہشتگردی لوٹ رہی ہے جس سے خوف پھیل گیا ہے۔
لوکل کونسل چیئرمین امیر اللہ نے کہا 2012ء میں جنازے پہ حملہ ہوا تھا جس میں 100 سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے تھے اور وہ واقعہ اب بھی ان کے ذہن پر نقش ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ علاقہ مکینوں میں پھیلے خوف و ہراس کو ختم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں اور لواحقین کو شہدا پیکچ دیا جائے۔