سانحہ 9 مئی کے بعد ملک بھر میں 105 ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیا گیا ہے۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کی آئینی و قانونی حیثیت پر بات کی جارہی ہے جبکہ ان ملزمان کی زندگیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ملٹری کورٹس میں سانحہ 9 مئی کے ملزمان کے ٹرائل کیسے کیے گئے اور ان ٹرائلز کے ملزمان کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ اس حوالے سے وی نیوز نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے 4 ملزمان کی نمائندہ وکیل خدیجہ صدیقی سے خصوصی انٹرویو کیا ہے۔
فوجی عدالتوں اور عام عدالتوں میں فرق کیا ہے؟
خدیجہ صدیقی نے اپنے تجربے کی بنیاد پر بتایا کہ ملٹری کورٹس عام عدالتوں سے مختلف ہیں، عام عدالتوں میں ایک جج ہوتا ہے جس کے ساتھ ایک سٹینوگرافر ہوتا ہے جو ساتھ ساتھ ٹائپ کر رہا ہوتا ہے، لیکن فوجی عدالتوں میں ایسا کچھ نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ فوجی عدالت میں ایک چھوٹا سا کمرہ ہوتا ہے وہاں لیفٹینیٹ کرنل اور میجر رینک کے افسران موجود ہوتے ہیں۔
خدیجہ صدیقی نے مزید بتایا کہ یہ عدالتیں ٹرائل کے دوران فوجداری مقدمات کے قانون شہادت اور ٹرائل کے طریقے کار سے بے خبر ہیں یا انہیں فرق نہیں پڑتا، ’شہادت کیسے ریکارڈ ہورہی ہے؟، شہادت ریکارڈ کرنے کا قانون کیا ہے؟ وہاں اس کی پرواہ نہیں کی جاتی، ہاتھ سے شہادت ریکارد کی جاتی ہے، عدالت میں جیگ برانچ کا بھی ایک رکن موجود ہوتا ہے جسے فوجی قوانین کا علم ہوتا ہے لیکن وہ پریکٹسنگ وکیل نہیں ہوتا، عدالت کو ایک لیفٹینیٹ کرنل کنڈکٹ کر رہا ہوتا ہے۔‘
وکیل خدیجہ صدیقی بتاتی ہیں کہ یہ ٹرائل بند کمرے میں ہوتے ہیں، آئین کے مطابق آزاد اور شفاف ٹرائل ہونا ضروری ہیں لیکن یہاں جن لوگوں نے مقدمات بنائے ہوتے ہیں وہی اپنے گواہان پیش کر کے فیصلے کر رہے ہیں اس لیے انہیں آزاد اور شفاف ٹرائل نہیں کہا جاسکتا۔
خدیجہ صدیقی کے مطابق فوجی عدالت میں ایک ملزم کو صرف ایک وکیل کی اجازت ہوتی ہے اور ساتھ میں کوئی معاون وکیل بھی داخل نہیں ہوسکتا، حتٰی کہ بہت سے ملزمان کے وکیل نہیں ہوتے اور انہیں جو وکیل فراہم کیا جاتا ہے وہ بھی آرمی آفیسر ہی ہوتا ہے جب کہ 9 مئی کے ملزمان میں بھی بعض لوگ ایسے تھے جن کو وکیل نہیں دیا گیا۔
عدالتی کارروائی کا اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے خدیجہ صدیقی نے کہا کہ و ہ ’عدالت میں واحد خاتون وکیل تھی، میرے ساتھ ان کا رویہ اچھا تھا، مجھے پرسکون رکھا لیکن جس طریقہ کار کے تحت ٹرائل ہوتا ہے وہ بالکل غلط ہے اور خلاف قانون ہے۔ وہاں یہ سوچ ہے کہ اس کی ویڈیو آگئی ہے تو بس ٹرائل کریں اور سزا دیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پہلے دن فوجی عدالت میں تھوڑا عجیب لگا کیوںکہ وہاں کالا کوٹ پہنے وکیل یا جج نہیں تھے بلکہ باوردی فوجی افسران تھے، لیکن پھر مجھے عادت ہوگئی۔‘
عام قیدیوں اور فوج کی تحویل میں قید ملزمان میں کیا فرق ہے؟
قیدیوں سے متعلق سوال کے جواب میں خدیجہ صدیقی نے کہا کہ کوٹ لکھپت جیل میں اور فوج کی تحویل میں قید ملزمان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عام قیدی کو 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے لیکن فوج کی تحویل میں لوگوں کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
خدیجہ صدیقی کے مطابق ان ملزمان کو ’ روزانہ کی بنیاد پر ایک چھوٹے سے اندھیرے کمرے (سیل) میں رکھا جاتا تھا جہاں 12، 12 گھنٹے تک تفتیش جاری رکھی جاتی، اس دوران ملزمان نے خود پر تشدد کی بھی شکایات کی ہیں، ملزمان بتاتے ہیں کہ ابتدائی 2 ماہ میں انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔‘
خدیجہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ’ابتدا میں ملزمان پر اعترافی بیان کے لیے ذہنی اور جسمانی تشدد کیا گیا۔ ایک ملزم کو جب ہر طرح سے ٹارچر کیا گیا لیکن وہ اعترافی بیان دینے کے لیے رضا مند نہ ہوا تو جب اس کے سامنے ناخن نکالنے والی مشین لائی گئی تو پھر وہ اعترافی بیان ریکارڈ کروانے کے لیے تیار ہو گیا۔‘
خدیجہ صدیقی کے مطابق ’ لاہور میں فوجی عدالتوں کا سامنا کرنے والے 28 ملزمان تھے اور سب نے اعترافی بیان دے دیا اور سب کے بیانات تقریباً ملتے جلتے ہی تھے۔ ابتدائی طور پرجب 2 جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ان ملزمان کو پیش کیا گیا تو انہوں نے جب ان کے جسم پر جسمانی تشدد کے نشانات دیکھے تو انہوں نے اعترافی بیان ریکارڈ کرنے سے ہی انکار کردیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کوٹ لکھپت میں حالات مختلف ہیں، وہاں فیملیز سے ملاقات کی اجازت ہے لیکن یہاں تو ابدتدائی 2 ماہ تک ملزمان کا کچھ پتا ہی نہیں تھا، یہ بھی نوٹ ہوا ہےکہ فوج کی تحویل میں ملزمان کا وزن کم ہوا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حسان نیازی کا 25 کلو تک وزن کم ہوا ہے لیکن جب سے اعترافی بیان لیا گیا ہے اس کے بعد اب تشدد نہیں کیا جاتا اب کچھ بہتر طریقے سے رکھا جارہا ہے۔‘
کیا حسان نیازی کو اپنے کیے پر کوئی ندامت ہے؟
حسان نیازی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں خدیجہ صدیقی نے بتایا کہ ’حسان نیازی کو اس لیے ٹارگٹ کیا گیا کہ وہ عمران خان کا بھانجا ہے ان پر اس بات کا کیس بنایا گیا ہے کہ وہ ایک ممنوعہ علاقے میں گئے۔ کیسے جیو فنسگ سے 10 ہزار لوگوں میں سے 28 لوگوں کو الگ کر دیا گیا اور پھر ان کو فوج کی تحویل میں دے دیا گیا۔؟‘
انہوں نے کہا کہ ’حسان نیازی کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے تاکہ ایک مثال بنائی جاسکے لیکن حسان نیازی گزشتہ سال 9 مئی کو جس مؤقف پر کھڑے تھے وہ آج بھی وہیں کھڑے ہیں ۔‘