اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آئندہ جمعہ کو متوقع اجلاس میں اقوام متحدہ میں فلسطین کی آزاد ریاست کی حیثیت کا درجہ بلند ہونے کا قومی امکان ہے، ووٹ کا حق ملنے کے بعد فلسطین کو جنرل اسمبلی میں تقریباً تمام ریاستی حقوق فراہم کردیے جائیں گے۔
آئندہ اجلاس میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے پیش کردہ ایک قرارداد بھی متوقع ہے، جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے فلسطین کو اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اکثریتی حمایت کے ساتھ، اس قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ فلسطین چارٹر کے آرٹیکل 4 کے مطابق اقوام متحدہ میں رکنیت کے لیے اہل ہے اور اس لیے اسے اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے تسلیم کرلینا چاہیے۔
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا کی جانب سے فلسطین کی رکنیت کی درخواست کو ویٹو کرنے کے بعد فلسطینی اتھارٹی نے متحدہ عرب امارات کے ذریعے جنرل اسمبلی سے رجوع کیا ہے، امریکا سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان میں سے ایک ہے جسے ویٹو پاور بھی حاصل ہے۔
متحدہ عرب امارات کی مجوزہ قرارداد تقاضا کرتی ہے کہ سلامتی کونسل اس معاملے پر احسن طریقے سے غور کرے، لیکن اپنے اصل میں اس کا متن اقوام متحدہ کی رکنیت کا تعین کرنے کے لیےسلامتی کونسل کے واحد اختیار کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلیکی قراردادوں کو ویٹو نہیں کیا جا سکتا، اور فلسطین اتھارٹی کو جنرل اسمبلی میں خودکار اکثریت کی حمایت حاصل ہے، جہاں اس کے تقریباً 140 اراکین پہلے ہی آزادانہ طور پر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پاس فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کی رکنیت دینے کا باضابطہ اختیار نہیں ہے، لیکن یہ انہیں ڈی فیکٹو شناخت فراہم کر سکتا ہے جو انہیں اقوام متحدہ کے نظام میں بطور ریاست کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
2012 میں، جنرل اسمبلی نے فلسطینیوں کو 138 ووٹوں سے غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دیا تھا جبکہ مخالفت میں 9 ووٹ دیے گئے تھے، یہ اقدام انہیں اقوام متحدہ کے فورمز میں شرکت کرنے اور اس کے بہت سے قوانین اور معاہدوں پر دستخط کرنے کی اجازت دیتا ہے، بشمول روم اسٹیٹ، جو بین الاقوامی فوجداری عدالت کو چلاتی ہے۔
ریاستی نہیں لیکن اسی طرح کی حیثیت
قرارداد کے موجودہ مسودے کے مطابق، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اس جمعہ کو فلسطین کو ایک رکن ریاست کے طور پر اپنی چھت تلے کام کرنے کا حق دے گا، جس کے مطابق ووٹ دینے کے حق کے علاوہ، جس کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری درکار ہوگی، فلسطین کو تقریباً سب کچھ دیا جائے گا۔
قرارداد میں فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت سمیت ان کی آزاد ریاست فلسطین کا حق کی توثیق کی گئی ہے، عملی طور پر ریاست فلسطین کو رکن ممالک کے درمیان بٹھایا جا سکتا ہے اور اسے اپنی طرف سے یا گروپوں کی طرف سے اجلاس سے خطاب کرنے کے وسیع حقوق دیے جا سکتے ہیں۔
فلسطینی اقوام متحدہ کے نظام میں اپنی طرف سے یا گروپوں کی جانب سے قراردادیں، تجاویز اور ترامیم پیش کر سکتے ہیں، اگر یہ قرارداد منظور ہو جاتی ہے تو فلسطینی اعلیٰ سطحی اجلاسوں اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھی شرکت کر سکتے ہیں جہاں انہیں ووٹنگ کا حق حاصل ہو گا۔
مغربی ریاستوں بالخصوص امریکا نے فلسطینی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے کی مخالفت کی ہے، ان کا خیال ہے کہ اسے دونوں ریاستوں کے لیے حتمی حیثیت کے امن معاہدے کی تکمیل پر دیا جانا چاہیے۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ اسرائیل-فلسطینی تنازعہ کے دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات ایک دہائی سے منجمد ہیں اور غزہ جنگ کی روشنی میں، مغربی ریاستوں میں یکطرفہ فلسطینی ریاست کے لیے حمایت بڑھ رہی ہے۔
Recognizing a Palestinian State after October 7 means rewarding Hamas for murdering over 1,000 Israelis.
It means giving a prize to the Iranian Regime.
It means living with the possibility of another October 7.
The only way to promote peace is through direct… pic.twitter.com/DFRQiX91Vm
— ישראל כ”ץ Israel Katz (@Israel_katz) May 8, 2024
اسرائیل کی حکومت نے فلسطینی ریاست کی مخالفت کی ہے لیکن یکطرفہ فلسطینی ریاست کے اعلان کے ضمن میں اس بات پر اتفاق کیا کہ اس طرح کی ریاست صرف مذاکراتی عمل کے ذریعے حاصل کی جانی چاہیے۔
اسرائیلی استدلال کے مطابق جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد جس میں 1200 سے زائد افراد ہلاک اور 252 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، فلسطینیوں کو تسلیم کرنا دہشت گردی کا انعام دینے کے مترادف ہوگا۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے بدھ کے روز ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطلب حماس کو 1000 سے زیادہ اسرائیلیوں کے قتل پر انعام دینا ہے۔