دنیا بھر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے موسیقی کے آلات و ساز متعارف ہو رہے ہیں جبکہ کئی موسیقی کے آلات کی جگہ کمپیوٹر سافٹ ویئرز نے لے لی ہے۔
اسی طرح ٹیکنالوجی کے بڑھتے رجحان کے باعث پرانے آلاتِ موسیقی و ساز کو بجانے والے افراد کی تعداد بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔ اسی طرح کی صورتحال بلوچستان میں بھی ہے اور قدیم ساز بجانے والے فنکار ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن کوئٹہ کے رہائشی 55 سالہ رہائشی علی جان کاسی نے ماؤتھ آرگن بجانے کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
علی جان کاسی عرف اے جے کاسی پیشے کے اعتبار سے ٹھیکیدار ہیں لیکن موسیقی علی جان کاسی کی روح میں بسی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب اے جے کاسی ماؤتھ آرگن پر سُر چھیڑتا ہے تو ہر سننے والا سحر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
علی جان کاسی کا تعلق کوئٹہ میں صدیوں سے مقیم پشتون قبائل سے ہے۔ ٹھیکیدار کے طور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ موسیقی بچپن سے ہی ان کا جنون رہا ہے اور بلوچستان میں وہ ایک پیشہ ور ماؤتھ آرگنسٹ بن گئے ہیں۔
اے جے کاسی بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی سمیت 10 سے زائد زبانوں کے گیتوں کے علاوہ مختلف راگ اور سُر بھی ماوتھ آرگن پر بجا سکتے ہیں۔
علی جان کاسی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کوئٹہ میں اپنے گھر کے قریب پہاڑ پر سیر کی غرض سے آیا کرتے تھے جہاں کچھ لوگ ’ماؤتھ آرگن‘ بجایا کرتے تھے اور ماؤتھ آرگن کی میٹھی دُھن نے انہیں 20 سال کی عمر میں اپنی طرف متوجہ کیا جس کے بعد انہوں نے اس ساز کو سیکھنے کا فیصلہ کیا۔
علی جان نے بتایا کہ عبداللہ استاد سے انہوں نے ماؤتھ آرگن بجانے کی بنیادی تعلیم حاصل کی جس کے بعد گھر میں مسلسل مشق کرنے سے اس ساز کو بجانے پر مہارت حاصل کی۔
اے جے کاسی بتاتے ہیں کہ ماؤتھ آرگن بجانا دیگر ساز بجانے کی نسبت مشکل ہے کیونکہ صرف پھوک مار دینے سے ماؤتھ آرگن نہیں بجتا بلکہ اسے ایک خاص زاویے پر پھوک کے ساتھ اسے حرکت دینے پر ہی سُر نکلتا ہے۔
علی جان کاسی کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں ان کے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو 18ویں صدی میں ایجاد ہونے والے اس جرمن موسیقی کے آلے سے واقف ہو۔
اے جے کاسی ماؤتھ آرگن کے علاوہ ہارمونیم، بانسری سمیت کئی آلاتِ موسیقی بجانے پر عبور رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علی کاسی کا اپنا ایک اسٹوڈیو بھی ہے جہاں مختلف موسیقار اپنے گانے ریکارڈ کرتے ہیں۔
علی کاسی کہتے ہیں کہ میں نے فن کو اپنے شوق کے لیے زندہ رکھا ہوا ہے اور یہ فن ان کی ضرورت نہیں بلکہ شوق ہے۔