معروف ڈرامہ سیریل ’بلیک لسٹ‘ کے ساتویں سیزن کی ایک قسط بہت دلچسپ تھی۔ یہ قسط شور کے ذریعے لوگوں کو اذیت دینے اور قتل کرنے کے جرم میں ملوث ایک عادی مجرم کی کہانی ہے۔ وہ ایک سرکاری ادارے میں ملازمت کے دوران مشینوں کے شور کی وجہ سے کئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً اپنی پریشانیوں اور مسائل کا دنیا سے بدلہ لینے کے لیے لوگوں کو انتہائی بلند شور کےذریعے اذیت دے کر قتل کرتا ہے۔
ہمارے اطراف ایک اور قسم کا شور عام ہو چکا ہے جو کم اذیت ناک نہیں۔ یہ سیاسی، نظریاتی، مذہبی یا کسی قسم کے اختلاف رائے کے ذاتی دشمنی میں بدل جانے اور اس کے نتیجے میں مروت، ادب، احترام اور تحمل جیسے انسانی رویوں کی جگہ گالم گلوچ کلچر کے عام ہوجانے کا شورہے۔ ہم پہلے بھی کچھ ایسے بھلے مانس تو نہ تھے لیکن سوشل میڈیا نے ہمیں ننگا کر دیا ہے، یوں کہیے گویا بندر کے ہاتھ میں استرا آ گیا ہے۔
رابطوں کی برق رفتار ترقی نے سب کچھ الٹ پلٹ دیا ہے۔ پہلے بولنے اور لکھنے والے کم تھے، فورم بھی کم تھے اور سننے اور پڑھنے والے زیادہ۔ سننے اور پڑھنے والوں میں سے بولنے اورلکھنے کی خواہش رکھنے والے طویل محنت کے بعد اس مقام تک پہنچتے تھے کہ جہاں انھیں لکھنے یا بولنے کا موقع ملتا تھا، اورپھر ان میں سے بھی کوئی کوئی کامیاب ٹھہرتا تھا۔ بولنے والے کا تو مسئلہ اور بھی مشکل تھا کہ وہاں براہ راست مخاطب ہونے میں علم اور شعور کا سارا بھرم کھل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لیکن زمانہ بدلا اور اب تو یوں کہیے کہ بولنے اورلکھنے والے زیادہ ہیں سننے اورپڑھنے والے کم۔
یوں لگتا ہے سب بول رہے ہیں اور کوئی بھی دوسرے کی بات توجہ سے نہیں سن رہا۔ یہاں تک کہ شعر و ادب جیسا تخلیقی متن بھی جلد بازی کی نذر ہورہا ہے۔ کاتا اور لے دوڑی کے مصداق کچا پکا فوراً سوشل میڈیا کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ اگر کہیں سنجیدہ مکالمہ چل بھی رہا ہے توبات کرنے والا اپنی بات کو حتمی سمجھ کر بول رہا ہے اور سننے والے اس کی بات پوری طرح سننے سمجھنے کی بجائے اپنی جوابی دلیل کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اکثر نے جواب وہی دینا ہے جو ان کے دماغ میں پہلے سے موجود ہے۔ یوں سوال گندم جواب چنا جیسی صورت حال ہے۔ ان مباحث سے کوئی تعمیری سوچ برآمد نہیں ہو پا رہی۔یہ بس فشارخون بلند کرنے اور نفرتوں کو مزید ہوا دینے کا باعث ہی بنتے ہیں۔
ہمارا سماجی مزاج ویسے بھی تماش بین قسم کا ہے۔ اگر کہیں دو فرد آپس میں لڑ پڑیں توباقاعدہ ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے اور اس مقام پر کتنی ہی دیر اس ’جنگِ عظیم‘ کے بارے میں باتیں اور تبصرے ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے ماحول میں بتائیے کہ سکرین پر گھر بیٹھے ایسا تماشا دکھانے والوں کو اشتہار کیوں نہیں ملیں گے؟ کوئی عقلی دلائل ، شائستگی اور دھیمے پن کوکیوں اہمیت دے گا؟
لکھنےوالے الگ سے پریشان ہیں۔ انہیں توجہ سے کون پڑھے کہ پڑھنے والوں پر یہ راز افشا ہو گیا ہے کہ وہ خود لکھ سکتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ بغیر کسی مدیر کے اپنی مرضی کا لکھا ہوا پوسٹ بھی کر سکتے ہیں، اور قاری یا سامع کو تلاش کرنے کی ضرورت بالکل نہیں کیونکہ یہ سوشل میڈیا ہے اور آپ کے حصے کا بے وقوف خود آپ کی دہلیز تک آجائے گا۔ جن کے ہاتھ میں یہ ’نایاب ہنر‘ آ گیا ہے وہ سوشل میڈیا پر اپنے تبحر علمی کا مظاہرہ کرتے پھرتے ہیں۔ سارا دن بودی دلیلوں اور گھٹیا تبصروں سے سوشل میڈیا ایپس کا پیٹ بھرتے ہیں اور خوش ہیں۔ آپ کی کسی دلیل کے جواب میں مغلظات بکتے اور آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ آپ کس زمانے میں ہیں اور کہاں ہیں۔ ان کا ایک اور کمال یہ ہے کہ ہر معاملے میں، چاہے اس کے بارے میں زندگی میں پہلی بار سن رہے ہوں، پورے اعتماد کے ساتھ اپنی رائے دینا فرض سمجھتے ہیں۔
ایسے لوگوں سے کبھی روبرو ملاقات ہوجائے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ گاڑی، پلاٹ، تنخواہ، دوسروں کی غیبت اور برائیاں بیان کرنے جیسے معاملات کے علاوہ کسی ایشو پر ایک جملہ تک کہنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان کے امام، یعنی ان کے لیڈران تک کے سامنے اگر آپ غلطی سے کوئی ڈھنگ کی بات کر دیں تو دلیل کے طور پر وٹس اپ میں موصول تصاویر نما دلیلیں یا اپنے جھاگ اگلتے بلاگرز کے کلپس کھول کر آپ کے منہ پر مارتے ہیں اور آپ کو جلا کر راکھ کر دیتے ہیں۔
آپ کسی معتبر صحافی کا حوالہ دیں تو فرمائیں گے، وہ تو لفافہ ہے۔ ٹی وی شو کا ذکر کریں تو انتہائی حقارت سے کہتے ہیں،’ہم تو ٹی وی دیکھتے ہی نہیں‘۔ ٹھیک ہے آپ محقق اور عالم آدمی ہوں گے، اور ٹی وی ٹاک شوز کے مسائل بھی بہت ہیں اور ہمیں بھی ان پر کچھ زیادہ اعتماد نہیں، لیکن چھاج چھلنی کو کیا طعنہ دے گا۔ یعنی جو سوشل میڈیا کی معلومات پر اعتبار کرتے ہیں وہ کسی اور ذریعے کو نامعتبر کیسے کہہ سکتے ہیں؟
انسان سوچتا ہے، اس نفرت اور شور سے نجات کا یہی طریقہ ہے کہ موضوع بدل لیتے ہیں۔ چلیں یہ بتائیے کیا زندگی میں کسی بھی موضوع پر کوئی کتاب پڑھی ہے، کچھ بات ہو جائے۔۔۔ جواب آئے گا کتابوں کا کون سا دور ہے؟ ہر چیز تو موبائل پر دستیاب ہے، سارا علم ہمارے ہاتھ میں ہے تو کتاب کی کیا ضرورت؟ آپ کس زمانے میں رہتے ہیں؟ انسان سوچتا ہے، بات تو ٹھیک ہے، اگر ادب، فنون لطیفہ، یا دیگر علوم ان کا مسئلہ نہیں تو انہیں کتاب کی کیا ضرورت۔ توپھر کیا بات کی جائے؟ چلیں آپ کو اگر کرکٹ کا کھیل پسند ہے تو اس پرکچھ بات کرتے ہیں؟ ٹی 20 ورلڈ کپ سر پر ہے، اس پر کچھ بات کر لیتے ہیں۔ موجودہ کرکٹ ٹیم کے کمبینیشن کے بارے میں کچھ فرمائیے۔ یقین جانیں، ایسی ماہرانہ رائے سے نوازیں گے کہ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
اس بات سے ایک واقعہ یاد آیا، ایک پوش ایریا کی بظاہر پڑھی لکھی خاتون فرمانے لگیں پاکستان کے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ شاہد مسعود صاحب کو وزیراعظم بنا دیا جائے (یہ انھوں نے طنزاً نہیں ، پوری سنجیدگی سے کہا تھا)۔ ہم ان سے گاڑی خریدنے گئے تھے اور تقریباً معاملات طے پاچکے تھے، سو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بس اتنا کہا ’جی اس میں کوئی حرج نہیں، ویسے بھی یہاں کیا کچھ نہیں ہو چکا، لگے ہاتھوں یہ بھی ہو جائے‘۔ ہماری اس ذومعنی تائید پر بھی ان کی خوشی دیدنی تھی۔