بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا
دبئی لیکس آنے سے ایک دو دن پہلے سوشل میڈیا پر خوب اس کا چرچا تھا کہ نجانے کون کون سے شرفا کے نام سامنے آئیں گے۔ ان لیکس میں بڑے بڑے نام تو سامنے آئے لیکن اس کو ایک پراسرار طریقے سے جس طرح دبا دیا گیا ہے کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آخر کیوں اس معاملے کو یکدم دبا دیا گیا؟ میڈیا پر جس دن دبئی لیکس ریلیز ہوئی اس کے اگلے دن اچانک یہ معاملہ میڈیا ہیڈ لائنز سے ہٹا دیا گیا۔ آخر وجہ کیا بنی؟
سب سے پہلے تو یہ جانتے ہیں کہ دبئی لیکس ہے کیا اور اس کی اہمیت کیا ہے۔ دبئی لیکس میں پاکستان سمیت دنیا کے 204 ممالک کے شہریوں کی جائیدادوں کا ڈیٹا لیک کیا گیا تھا۔ ان ممالک میں اگر غیرملکیوں کی جائیدادوں کا حساب لگایا جائے تو پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر آتا ہے جس کے شہریوں کی دبئی میں جائیدادیں ہیں۔ غیر ملکیوں کی فہرست میں انڈیا پہلے نمبر پر ہے۔ دبئی میں غیرملکیوں سمیت متحدہ عرب امارات کے شہریوں کی مجموعی طور پر 386 ارب ڈالرز کی جائیدادیں ہیں اور پاکستانیوں کی تقریباً 11 ارب ڈالرز کی جائیدادوں کا ڈیٹا لیک ہوا ہے۔
اگر صرف ان جائیدادوں کی قیمت کو دیکھا جائے تو اس حساب سے بھی یہ لیکس اہمیت کی حامل ہیں۔ دبئی میں پیسہ لے جانا نہایت آسان ہے کیونکہ آپ جتنی بھی وہاں کیش رقم لے جائیں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ جس ملک کا شہری پیسا لے کر جارہا ہے اسے صرف اپنے ملک سے اگر ملی بھگت سے کسٹم کلیئرنس مل جائے تو آگے آپ سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہونی۔ امریکا کے مشہور اخبار وال اسٹریٹ جنرل کی 22 اپریل 2024 کی رپورٹ کے مطابق آپ دبئی میں جتنی مرضی چاہے رقم لے کر جاسکتے ہیں۔ آپ کو صرف ایئرپورٹ پر جاکر مطلع کرنا ہوتا ہے کہ آپ اتنی رقم لے کر جارہے ہیں۔ اس کے بعد آپ وہاں بینک اکاؤنٹ کھلوا کر کوئی بھی جائیداد خرید سکتے ہیں۔
دبئی کی ایسی ہی پالیسیوں کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کو فیٹف کی گرے لسٹ پر ڈالا گیا تھا۔ گوکہ اب یہ نام ہٹ چکا ہے لیکن اس کے باوجود یہ اسمگلروں، ڈرگ لارڈز، منی لانڈرز اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے پیسا جمع کرنے اور کالے دھن سے جائیدادیں خریدنے کا مرکز بن چکا ہے۔ اس لحاظ سے دبئی لیکس بڑی اہمیت کی حامل تھیں۔ کیونکہ اگر ان میں شامل ممالک کی حکومتیں اپنے اپنے شہریوں کے اثاثہ جات کی چھان بین کرتیں تو نا صرف اس سے شفافیت آتی بلکہ اگر کوئی غیر قانونی طریقے سے پیسا دبئی لے کر گیا ہے تو وہ جائیدادیں بیچ کر واپس بھی لایا جاسکتا تھا۔ لیکن ہماری حکومت نے پہلے ہی دن اسے دبانے کی کوشش کی۔
اگر پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سمیت ایک درجن کے قریب ریٹائرڈ فوجی جرنیل، دو ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل، موجودہ وزیر داخلہ محسن نقوی کی بیوی، سینیٹر فیصل واوڈا، ایک درجن کے قریب ایم این اے ایز، ایم پی ایز، سابق صدر عارف علوی کی بہو، موجودہ صدر کی دونوں صاحبزادیاں بختاور بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو زرداری اور بیٹا بلاول بھٹو زرداری سمیت بے شمار بیوروکریٹس اور بزنس مینوں کے نام سامنے آئے ہیں۔ تاہم ان سب نے اپنے موقف میں بتایا کہ یہ جائیدادیں ایف بی آر کے ساتھ ڈیکلئیرڈ کی ہوئی ہیں، صرف یہی نہیں ماضی قریب میں صدر آصف علی زرداری کے نام کے ساتھ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس سے جڑے جتنے بھی کردار تھے ان سب کے نام پر بھی دبئی میں جائیدادیں سامنے آئی ہیں۔
اتنے زیادہ اہم عہدوں پر تعینات رہنے والے افراد کے نام آنے کے بعد سوال یہ ہے کہ حکومت نے بجائے اس کے کہ کوئی اس پر تحقیقات کروائے نہ صرف خاموشی اختیار کی بلکہ بعض وفاقی وزرا نے تو اس کو ڈس کریڈٹ کرنے کی کوشش کی۔ اگر حقیقی معنوں میں ان لیکس پر کوئی تحقیقات ہوں تو اس سے موجودہ صدر آصف علی زرداری اور جعلی بینک اکاؤنٹس میں ملوث کرداروں کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ شاید یہی وہ وجہ ہے کہ حکومت نے مکمل خاموشی اختیار کرلی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مشکل میں اگر صدر آصف علی زرداری یا جعلی بینک اکاؤنٹس کے کردار آسکتے ہیں تو ن لیگ کے وزیراعظم کیوں اس معاملے کو دبائیں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر صدر آصف علی زرداری یا جعلی بینک اکاؤنٹس کے معاملے پر کوئی تحقیقات ہوتی ہیں تو زرداری صاحب حکومتی اتحاد چھوڑ سکتے ہیں۔ حکومتی اتحاد چھوڑنے کا مطلب ہے شہباز حکومت خطرے میں پڑ جائے گی۔ شہباز حکومت اگر خطرے میں پڑتی ہے تو ایک سیاسی بحران اور عدم استحکام پیدا ہوجائے گا اور اس سے عمران خان بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔ اورپاکستان اس وقت بالکل بھی سیاسی عدم استحکام برداشت نہیں کرسکتا۔ یہی وہ حکمت ہے جس کی وجہ سے شہباز حکومت نے اس پر مکمل طور پر خاموشی اختیار کر لی ہے اور مقتدر حلقے یا اسٹیبلشمنٹ بھی نہیں چاہتی ہے کہ فی الحال ملک میں کوئی سیاسی عدم استحکام پیدا ہو۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے میڈیا سمیت حکومت نے بھی اس معاملے کو دبا دیا۔