2022 کے سیلاب کے بعد یہ پہلی گندم کی فصل تھی جس میں مٹی سے لے کر موسم تک نے ساتھ دیا تھا۔ کسان زمینوں سے واپس آتا تو گھر والے اس سے فصل کا پوچھتے اور وہ خوشی خوشی احوال سناتا۔ لیکن کچھ حال و احوال وہ اپنے تک ہی محدود رکھتا، جیسے کھاد کے پیسے اور کیڑے مار ادویات کا خرچہ کہاں سے نکلا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اپنی تحریر میں خیالی کہانی کیوں سنا رہی ہوں، لیکن یہ سچ ہے اور یہ سچ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ شہری زندگی، گاؤں کی زندگی کو دو نظروں سے دیکھتی ہے، یا تو غربت کے مارے افراد یا پھر وڈیرے ہیں۔ لیکن جو چیز اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہے وہ یہ کہ وہاں درمیانی طبقے کے کسان بھی رہتے ہیں اور زراعت ہماری معیشت کا سب سے بڑا شعبہ ہے۔
یہاں کی زندگی کی حقیقتیں اور چیلنجز اکثر شہری لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ان کے مسائل، ان کی محنت، اور ان کی جدوجہد ایک ایسی کہانی ہے جو شاید ہی کبھی سنائی جاتی ہو۔ اس کے باوجود، وہ اپنے حصے کی جنگ لڑتے ہیں اور ہماری معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تو بات یہ ہے کہ 2022 کے بعد کسانوں نے خوب محنت کی اور قرضے لے کر بھی کھاد اور کیڑے مار ادویات پر اس خواب کے ساتھ خرچ کیا کہ اس بار ہماری محنت وصول ہوگی، لیکن جیسے فیض صاحب فرماتے ہیں: “وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں”۔ فصل کاشت کی صبح بھی فیض کی “صبح آزادی” کی جیسی ہی تھی۔ کسان جب مارکیٹ میں پوچھے تو پتہ لگا کہ ان کی گندم لینے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں۔
سیلاب کے بعد پاکستان کو گندم کی قلت کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے حکومت نے گندم درآمد کا فیصلہ کیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سال کی کٹائی ہوئی تو صرف صوبائی ذخائر میں 4.3 ملین ٹن گندم پہلے سے ہی موجود تھی۔ یہ بھی بتاتی چلوں کہ ہر سال پاکستان 30 ملین ٹن گندم استعمال کرتا ہے۔ یہ تو بات ہوگئی سپلائی اور ڈیمانڈ کی، کہ پاکستان نے بین الاقوامی منڈی سے گندم خریدی جس کی وجہ سے قومی گندم کی ڈیمانڈ کم ہوگئی۔
حکومت نے کسانوں کی دردناک صورتحال دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ وہ پھر بھی کسانوں سے گندم خریدے گی۔ اب بات کرتے ہیں مقامی مارکیٹ میں گندم کی خرید و فروخت کی۔ یہ بھی بتاتی چلوں کہ صوبائی حوالے سے میں جو بھی احوال دوں گی وہ سندھ کا ہوگا۔ سندھ حکومت نے چالیس کلو گندم چار ہزار روپے میں خریدنے کا فیصلہ کیا اور حکومت نے بالکل اسی ریٹ پر گندم خریدی، لیکن سوال یہ ہے کہ کس سے خریداری کی گئی؟۔ ایک وقت تھا جب وڈیرہ کلچر پر بات کرنا لازمی ہوگیا تھا، اب وقت ہے کہ تاجروں کی بات کی جائے جو اس نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ تاجر اکثر بڑے پیمانے پر گندم خرید کر ذخیرہ کر لیتے ہیں اور مناسب وقت پر اسے فروخت کرتے ہیں، جس سے اصل کسانوں کو ان کی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا۔
سندھ کے کسانوں نے موسم اور مٹی کی مہربانیوں کے باوجود اپنی محنت کا صلہ نہ ملنے پر مایوسی کا سامنا کیا۔ حکومت نے تو چالیس کلو گندم چار ہزار روپے میں خریدنے کا فیصلہ کیا، مگر حقیقت میں اس خریداری کا فائدہ کس کو ہوا؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس پر غور کرنا ضروری ہے۔
حالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ زراعت کے نظام میں شفافیت اور انصاف کی اشد ضرورت ہے۔ کسان جو کہ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ ان کے لیے منصفانہ مارکیٹ کا قیام، قرضوں کی آسان فراہمی، اور جدید زرعی تکنیک کے حوالے سے تربیت ضروری ہے تاکہ وہ اپنی محنت کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔
پاکستان جیسے زرعی ملک میں کسانوں کے مسائل کو نظرانداز کرنا ایک بڑی غلطی ہوگی۔ ہمیں ان کی محنت، مشکلات اور جدوجہد کو سمجھنا اور ان کا حل نکالنا ہوگا تاکہ نہ صرف کسان بلکہ ملک کی معیشت بھی مضبوط ہو سکے۔ اگر ہم واقعی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ملک کی خوشحالی کسانوں کی خوشحالی سے جڑی ہے۔