محاورہ ہے نا چولی دامن کا ساتھ، بالکل اسی طرح موسم اور کسان کا تعلق ہے۔ دیہاتی وسیب میں ایک اور محاورہ بولا جاتا ہے کہ “کسان آدھا ولی ہوتا ہے” کسان جو کچھ بوتا ہے اس کی اچھی یا بری بار آوری کا سارا دارومدار حالات و واقعات، موسمی تغیر و تبدّل ، قدرت کے رحم و کرم اور منڈی کی ضروریات پر ہوتا ہے۔
کہنے کو تو پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی عمر اسی برس ہونے کو ہے مگر کسان کی حالت نہ بہتر ہوئی ہے اور نہ ایسا ہونے کی کوئی امید۔
کبھی گنے کی پیداوار کم ہو تو چینی باہر سے منگوانی پڑتی ہے، زیادہ ہو تو گنا ملوں کے باہر رُلتا ہے۔ یہی صورتِ حال آلو، کپاس، گندم اور دیگر فصلوں کی ہے۔
گندم ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے۔ رواں برس جو کچھ گندم کے کاشت کاروں کے ساتھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے وہ نرم سے نرم الفاظ میں بھی شرم ناک ہی کہا جا سکتا ہے۔
پچھلے برس جب سرکار کے پاس ضرورت کے مطابق گندم کا ذخیرہ نہیں تھا تو کسانوں کے گھروں سے انتظامیہ چھاپے مار مار کر زبردستی گندم خریدتی رہی۔ اس سال ضرورت سے زیادہ گندم درآمد کر لی گئی اور خریداری کے موقع پر کاشتکار رل گیا۔ آپ اندازہ کریں سات دہا ئیاں گزرنے کے باوجود ہم فصلوں کی خریداری کے حوالے سے کوئی ٹھوس پالیسی وضع نہیں کر سکے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سرکار کا یہ کام ہی نہیں کہ وہ کسانوں کو سبسڈیاں دے اور ان سے گندم یا دیگر فصلیں خریدے۔ ان صاحبانِ علم و دانش کو کون بتائے کہ اگر کوئی سرکار روز مرہ استعمال اور کھانے پینے کی اشیاء کے ریٹس پر نظر نہ رکھے اور اپنے انتظامات کو ٹھیک طرح نہ چلائے تو امن امان کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔
لوگوں کو روزمرہ میں ضرورت کے مطابق، آٹا، چینی، گھی جیسی اشیاء میسر نہ آئیں تو کوئی بھی ملک بد امنی اور انارکی کا شکار ہو سکتا ہے جیسا کہ پچھلے دنوں ہمیں آزاد کشمیر میں صورتِ حال دیکھنے کو ملی۔
عمومی طور پر ملک میں کافی حد تک گندم کی فصل برادشت کی جا چکی ہے۔ اگر آپ پنجاب کےدیہی علاقوں میں جائیں تو کہیں کہیں گندم کی پچھیتی فصل کھڑی نظر آجائے گی۔ اس وقت کسان انتہائی بد دل ہے اور ایسا ہاتھ اس کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ مطلب اپنی سرکار سے اسے کوئی آس امید نہیں۔
دوسری طرف ایک زمانے میں بھارتی پنجاب میں کسان کی ترقی اور اس کو دی گئی سہولیات کی مثال دی جاتی تھی۔ اب وہاں ہونے والا احتجاج اپنی جگہ بعض اوقات کسانوں کی خود کُشیوں کی خبریں بھی آتی ہیں۔ اس وقت بھی مشرقی پنجاب میں احتجاج جاری ہے گو کہ لوک سبھا کے آئندہ انتخابات کی وجہ سے احتجاج کسی حد تک دب سا گیا ہے۔ لیکن گزشتہ برس بھارت میں کسانوں کا بے مثال احتجاج دیکھنے کو ملا۔
جالندھر کے ایک کاشت کار چرن داس سنگھ سندھو نے بتایا کہ کسان کے خرچے پورے نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا وبا ء نے سرمایہ داروں کو ایک بات سکھائی ہے کہ خوراک کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا۔ اب وہ ہماری زمینوں پر بھی قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں انگریز نے ریل کا نظام عام لوگوں کی سہولت کے لئے نہیں بنا یا تھا۔ بلکہ اپنی آسانی کے لئے قائم کیا تھا تا کہ وہ مال اسباب آسانی کے ساتھ لے جا سکیں۔ اسی طرح بھارتی پنجاب میں آٹھ آٹھ رویہ سڑکیں بڑے سرمایہ داروں کی سہولت کے لئے بنا ئی جا رہی ہیں تا کہ وہ پنجاب کے غلّے کو اپنے منافع کے لئے ٹھکانے لگا سکیں۔
چرن سنگھ سے جب سوال کیا کہ احتجاج کا زیادہ زور پنجاب میں کیوں ہوتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پنجاب کا کسان پڑھا لکھا ہے اس لئے وہ سمجھتا ہے کی 50، 50 ہزار ایکڑ کے فارم کمپنیوں کی لوٹ مار کے لیے بنائے جائیں گے نا کہ کسان کو کوئی فائدہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا جب ایک کمپنی کار بناتی ہے تو وہ کار کی قیمت خود طے کرتی ہےتوکسان اپنی فصل کی قیمت خود کیوں طے نہیں کر سکتا؟ چرن سنگھ سمجھتے ہیں کہ مودی سرکار کسانوں کو اجاڑ کر کاپوریٹ گھرانوں کو نوازنا چاہتی ہے۔
امرتسر کے رہنے والے ایک اور کسان رنجیت سنگھ گھمن کا کہنا تھا کہ کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر یہ سارا منافع سرمایہ دار خود ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے کہ کسانوں کی فصلیں مرضی سےخریدیں اور مرضی سے بیچیں۔
دسری طرف ایک امریکی سکھ ہر جیت سنگھ سے پچھلے دونوں انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے کہا کہ کارپوریٹ فارمنگ ہی آئندہ انسان غذائی ضروریات پوری کرسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں ہزاروں ایکڑز پر پھیلے ہوئے فارمز ہیں۔ جلد یا بدیر ہمارے ملکوں میں بھی یہ نظام اپنانا پڑے گا۔
کسانوں کے برے حالات ادھر ہوں یا اُدھر، ان کا اثر عام فرد کی زندگی پر ضرور پڑتا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں زرخیز زرعی زمینوں پر قائم ہونے والی ہاؤسنگ اسکیموں نے جس طرح زراعت پر کاری ضرب لگائی ہے اس کے تباہ کُن نتائج کا اندازہ لگانا شاید ابھی مشکل ہو مگر ایک بات طے شدہ ہے ان سوسائٹیوں کے قیام سے زرعی رقبہ تو کم ہوگا ہی ہوگا۔ موسمیاتی حالات پر بہت برا اثر پڑے گا۔
ایک طرف شہروں پر آبادی کا دباؤ پڑے گا اور دوسرا غذائی کمی کے چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔
صورتِ حال یہ کہ دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں سے کبھی دہلی پہلے نمبر پر ہوتا ہے اور کبھی لاہور یہ مقام حاصل کر لیتا ہے۔ بھارتی اور پاکستانی پنجاب دونوں گزشتہ کچھ برسو ں سے سموگ کا سامنا کر رہے ہیں۔
دھوئیں اور دھند کی آمیزش سے بننے والا یہ عفریت ہر سال اکتوبر تا فر وری ایک عذاب کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔
اپریل مئی کے مہینوں میں جب شہروں میں بارش کا موسم بنتا ہے تو شہریوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے جب کہ دیہاتوں کا مکین کسان بارش نہ ہونے کی دعائیں مانگتا ہے۔ محاورہ ہے کہ گندم کی کٹائی کے موسم میں سونے کی بوند بھی کسان کو وارا نہیں کھاتی۔ اسے لیے کہتے ہیں نا کسان آدھا ولی ہوتا ہے کہ اس کا سارا معاملہ قدرت، موسمی تغیر و تبدلات پر منحصر ہوتا ہے۔ کبھی وہ اچھی فصل کے لئے بارش کی دعا کرتا ہے اور کبھی نہ ہونے کی۔ اسی لیے موسم اور کسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔