معروف برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا اور کینیڈا غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے آنے والے پناہ کے متلاشیوں کو واپس بھیجنے سے متعلق ایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔
توقع ہے کہ اس معاہدے سے سرحد کے دونوں طرف کے حکام کو ایسے تمام لوگوں کو واپس بھیجنے کی اجازت ملے جائے گی جو پناہ کی تلاش میں کسی بھی سمت جا رہے ہوں گے۔
واضح رہے کہ کینیڈا سے امریکا کی جانب تارکین وطن کی آمدورفت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
کینیڈا کے ساتھ معاہہ دراصل نیویارک ریاست اور صوبہ کیوبیک کے درمیان ایک غیر سرکاری کراسنگ ’ روکسہم روڈ ‘ پر تارکین وطن کی آمد کو محدود کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک بعض سرکاری عہدیداروں نے بتایا ہے کہ معاہدے کے ایک حصے کے طور پر کینیڈا جنوبی اور وسطی امریکا میں ظلم و ستم اور تشدد سے فرار ہونے والے 15,000 تارکین وطن کے لیے ایک نیا پناہ گزین پروگرام بنائے گا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر بائیڈن، کینیڈین حکومت کے ساتھ اقتصادی، تجارتی اور امیگریشن کے مسائل کے سلسلے میں بات کرنے کے لیے ایک روزہ دورے پر کینیڈا میں ہیں۔ امریکی صدر اسی مدت کے دوران آج کسی وقت اس معاہدے کا اعلان کر دیں گے۔
یہ معاہدہ دونوں فریقوں کے 2004 کے محفوظ تیسرے ملک کے معاہدے میں ایک ترمیم ہے، جس کے تحت تارکین وطن کو اپنے پہلے ’محفوظ‘ ملک میں پناہ کا دعویٰ کرنا ہوگا، چاہے وہ امریکا ہو یا کینیڈا۔
نیا انتظام محفوظ تھرڈ کنٹری معاہدے میں ایک خامی کو بند کردے گا جس نے کینیڈا کو غیر سرکاری کراسنگ پوائنٹس پر سرحد عبور کرنے والوں کو ہٹانے سے روک دیا تھا۔
اس خامی کی وجہ سے تارکین وطن ’ روکسہم روڈ ‘جیسے مقامات سے کینیڈا میں داخل ہو رہے تھے۔
،رپورٹس کے مطابق امریکا کینیڈا نئے سرحدی معاہدے پر بات چیت مہینوں سے تعطل کا شکار تھی۔ امریکی حکام مبینہ طور پر اس معاہدے پر دوبارہ کام نہیں کرنا چاہتے تھے، کیونکہ امریکا میکسیکو سرحد پر اپنے ہی تارکین وطن کے بحران سے دوچار تھا۔