پاکستان کرکٹ ٹیم وہ نشہ ہے جو بچپن سے میری عمر کے فینز کے منہ کو لگا ہوا ہے۔ اول تو یہ نشہ چھوڑا ہی نہیں جا سکتا، لیکن اگر چھوڑ بھی دیں تو پھر زندگی میں کیا لطف باقی رہ جائے گا؟ جب سے ہوش سنھبالا ہے، تب سے اس ٹیم نے خوشیاں اور غم دیے ہیں۔ البتہ غم یا پھر روگ کہہ لیں، تھوڑے زیادہ ہی لگے ہیں اور خوشیاں کم ہی ملی ہیں۔
اپنی ٹیم کبھی بھی مستقل مزاج نہیں تھی۔ ہماری ٹیم کی شروع سے ہی عادت ہے کہ اگر یہ ہرانے پر آئے تو ورلڈ نمبر ون کو بھی ہرا دے گی اور ہارنے پر آئے تو آئرلینڈ سے بھی ہار جائے گی۔ ہم ہر ورلڈ کپ میں ‘انڈر ریٹڈ’ یا پھر ‘ان پریڈیکٹیبل’ کے ٹیگ کے ساتھ جاتے ہیں اور پھر کھیلتے بھی بالکل ویسے ہی ہیں، لیکن گزشتہ 3 برسوں سے قومی ٹیم نے ہمیں رلا کر رکھ دیا ہے۔
سنہ 2017 کے بعد پاکستانی ٹیم میں نوجوان کھلاڑی آئے اور اس نئے دور کو ’ہول سَم اِیرا‘ یعنی بھائی چارے اور دوستی کی ٹیم کا عہد قرار دیا جانے لگا۔ قومی ٹیم کا ’غیر معمولی‘ ہول سَم ایرا بابر اعظم کے کپتان بننے کے بعد شروع ہوا اور 2021 کے آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ میں بھارت کو پہلی بار کسی بھی ورلڈ کپ میں شکست دینے کے بعد پاکستانی ٹیم مکمل طور پر بدل گئی۔
بابر اعظم کو بطور کپتان پوری ٹیم نے نہ صرف قبول کیا بلکہ کھلاڑی اُن کے خلاف چلنے والی کسی بھی مہم کا سوشل میڈیا پر منہ توڑ جواب دیتے رہے۔ یہ ہول سَم ٹیم جہاں اتحاد اور محبت کے باعث دل جیتتی رہی، وہیں اس ٹیم نے پچھلے 3 سالوں میں کوئی بھی بڑی کامیابی حاصل نہ کی۔
بابر اعظم کی کپتانی میں پاکستان نے پچھلے 3 برسوں میں 2 ٹی20 اور ایک ون ڈے ورلڈ کپ جبکہ 2 ایشیا کپ کھیلے۔ پچھلے سال انڈیا میں کھیلے گئے ون ڈے ورلڈ کپ کے علاوہ تمام ایونٹس میں پاکستانی ٹیم جیت کے قریب آ کر ہار گئی۔
2021 کے ٹی20 ورلڈ کپ میں قومی ٹیم سیمی فائنل سے پہلے ناقابلِ شکست رہی اور پھر سیمی فائنل میں شاہین آفریدی کی 3 گیندوں پر آسٹریلوی وکٹ کیپر بیٹر میتھیو ویڈ نے 3 لگاتار چھکے لگا کر فتح ہمارے ہاتھوں سے چھین لی۔ مجھ سمیت کوئی بھی پاکستانی یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا کہ ہم اتنی شاندار کارکردگی کے بعد وہ ورلڈ کپ کیسے نہ جیت سکے لیکن اللہ کی مرضی اور قسمت کا کھیل سمجھ کر دل کو تسلی دی کہ ٹیم بہت اچھا کھیلی ہے، بس ہمارے نصیب میں نہیں تھا۔
اس کے بعد 2022 میں کھیلے گئے ٹی20 ایشیا کپ کے فائنل میں ہم سری لنکا کی آدھی ٹیم 58 رنز پر آؤٹ کرنے کے باوجود بھی ہار گئے۔ دل پھر سے ٹوٹا لیکن یہ تسلی رہی کہ آگے آنے والے ٹی20 ورلڈ کپ میں ہم اچھا کھیلیں گے۔ 2022 کا ٹی20 ورلڈ کپ آیا۔ ہم انڈیا سے جیتا ہوا میچ ہارے اور پھر زمبابوے سے ہارنے کے بعد سکواڈ میں اپنے بارہویں کھلاڑی ’قدرت کے نظام‘ کی تاریخی انٹری کے بعد ہم فائنل تک پہنچ گئے لیکن پھر میلبرن کرکٹ سٹیڈیم میں انگلینڈ کے ہاتھوں ہمارا دل ٹوٹ گیا۔
اس کے بعد ون ڈے کا سال یعنی 2023 آیا اور ہم آخری گیند پر سری لنکا سے ہارنے کے بعد گروپ راؤنڈ سے ہی ایشیا کپ سے باہر ہوگئے۔ اس ٹورنامنٹ میں تو چلو انجریز کے باعث ٹیم کی مجموعی کارکردگی بری تھی تو ٹوٹے ہوئے دل کو پھر تسلی ہوئی کہ ہم انڈیا میں ون ڈے ورلڈ کپ میں کچھ اچھا کریں گے۔ ورلڈ کپ کے ابتدائی 2 میچ جیتنے کے بعد 2 میچ لگاتار ہارنے اور پھر جنوبی افریقہ سے چنئی میں اعصاب شکن مقابلہ ہارنے کے بعد ہم تقریبا ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئے۔
ان سارے ٹورنامنٹس کا احوال دیکھیں۔ اس میں آپ کو ایک بات مشترکہ ملے گی کہ پچھلے 3 برسوں میں ہونے والے ٹورنامنٹس کے ناک آؤٹ میچوں میں ہم ایک وقت پر بالکل مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایک دم سے اپنی ٹیم نہ ہارنے والی جگہ سے ہار جاتی ہے۔
چند دنوں بعد ایک مرتبہ پھر سے آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ شروع ہونے والا ہے۔ یہ ممکنہ طور پر بابر اعظم کا بطور کپتان آخری آئی سی سی ٹورنامنٹ ہو سکتا ہے۔ پچھلے ٹورنامںٹس میں جو ہوا وہ شاید زندگی میں کبھی نہ بھولے لیکن وقت آگیا ہے کہ بابر اعظم اور پاکستانی ٹیم وہ سب کچھ بھلا کر ایک تازہ دم آغاز کرے اور اس بار پوری جان لگا دے کہ یہ ورلڈ کپ ہاتھ سے صابن کی طرح نہیں پھسلنا چاہیے۔
پڑوسی ملک کی مشہور فلم ’راک سٹار‘ تو آپ کو یاد ہی ہوگی جس میں رنبیر کپور کہتے ہیں کہ، ’میرا دل نہیں ٹوٹنا چاہیے کھٹانا بھائی‘ اسی طرح جو مرضی ہو جائے ’اس بار ہمارا دل نہیں ٹوٹنا چاہیے بابر بھائی۔‘
ہمارا دل اتنی مرتبہ ٹوٹ چکا ہے کہ اب مزید کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اپنی ٹیم کے دکھ دیکھ دیکھ کر اب کسی اور چیز کی طاقت ہی نہیں رہی۔ ہماری آںکھیں اب ورلڈ کپ ٹرافی دیکھنا چاہتی ہیں۔ اب ہم بھی 29 جون کو ڈھول کی تھاپ پر ناچنا چاہتے ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ جب بابر اعظم اور ٹیم ایئرپورٹ پر اترے تو اُن کے ہاتھ میں ورلڈ کپ کی خوبصورت ٹرافی ہو اور سامنے عوام پھول لے کر کھڑی ہو اور ملک بھر میں جشن ہو۔
بابر بھائی، کچھ بھی کریں بس لیکن اس بار ہمارا دل نہیں ٹوٹنا چاہیے کیونکہ اگر اس بار دل ٹوٹا تو پھر شاید ہی کبھی دوبارہ جڑے۔