جمہوری ناٹک اور قصہ چار درویشوں کا

پیر 27 مارچ 2023
author image

عرفان بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

میر امن دہلوی نے اپنی کتاب باغ و بہار میں چار درویشوں کی کہانی لکھی ہے جنہیں عشق درویشی کی راہ دکھاتا ہے۔یہ درویش دراصل بادشاہ ہوتے ہیں جو عشق کی خاطر سب کچھ تیاگ کر درویشی اختیار کر لیتے ہیں۔

گو کہ میر امن دہلوی نے یہ کہانی دو سو سے ڈھائی سو سال پہلے لکھی تھی مگر اردوو ادب میں یہ کہانی اپنے اسلوب ،پلاٹ اور زبان کے لحاظ سے آج بھی مقبول و معروف ہے۔

میر امن کی یہ کہانی تو فرضی ہے مگر میں آپ کو حقیقی چار درویشوں کی کہانی سناتا ہوں۔یہ کہانی ہمارے ملک میں ستر سال سے چلنے والے جمہوری ناٹک کی ہے۔اس جمہوری ناٹک کے چار درویشوں کی کہانی بھی اتنی ہی دلچسپ ہے جتنی باغ و بہار کے چار درویشوں کی ہے۔

اس حقیقت سے فرار ممکن نہیں کہ معاشرے کو جمہوری بنائے بغیر آپ جمہوری ریاست قائم نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں سماجی سطح پر پائی جانے والی انتہا پسندی کا تعلق کسی دشمن ملک کی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ ان نظریات میں یہ پیدائشی طور پر موجود ہے جنہیں ہمارے معاشرے کی بنیاد بنایا گیا۔

آئین ریاست کی بنیادی اکائی ہوتا ہے۔ آئین کے بغیر ریاست کی تعریف ہی ممکن نہیں رہتی۔ گویا آئین ہے تو ریاست ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے وسیع تر قومی مفاد میں آئین کو معطل کیا جا رہا ہے تو سوچتا ہوں کون سے قومی مفاد میں عوام اور ریاست کے درمیان تعلق کو توڑا جا رہا ہے؟

جب ریاست اور عوام کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے تب صرف ظلم باقی رہتا ہے۔ یہ ظلم ہم پر کئی دہائیوں سے جاری ہے۔

پہلا درویش

پاکستان نے بھی کیا عجب قسمت پائی ہے۔تقسیم ہند کے بعد انڈیا نے اپنا آئین فوراً بنا لیا تھا اور اسے لاگو بھی کر دیا تھا،ا جب کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والی ریاست ،جس کا قانون چودہ سو سال پہلے بنایا جا چکا تھا، نو سال تک کسی قانون و آئین کے بغیر چلتی رہی۔

انڈیا میں پٹیل ،آزاد،گاندھی جیسے طاقتور لیڈر موجود تھے۔ جنہوں نے ملک کو چلانے کے لیے سب سے پہلے زرعی اصطلاحا ت نافذ کیں، تاکہ ملک میں سے طاقتور جاگیرداروں کا غلبہ نہ رہے۔

جس کی وجہ سے انڈیا میں آئین کی بنیادیں بڑی مضبو ط ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف مملکت خداد میں قائد اعظم اور اس کے جانشینوں کو ملک چلانے کے لیے جاگیرداروں اور مذہبی ٹھیکیداروں سے مفاہمت کی راہ اپنانا پڑی ، جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی سطح پر کوئی طاقتورشخصیت پیدا نہ ہو سکی ۔

سیاسی سیٹ اپ کی کمزوری کے باعث ملا ملٹری گٹھ جوڑ مضبوط ہوا ۔ جس نے اپنے مفاد کی خاطر ملک کی نظریاتی سرحدوں کو اتنا اونچا بنا دیا کہ پورا ملک آذاد ہوتے ہوئے بھی مختلف اداروں اور مختلف طبقات کا غلام بن کر رہ گیا۔

بہر حال! خداا خدا کر کے 1956 میں مملکت خداداد کا پہلا آئین پاس ہوتا ہے جو کہ اتنا لاغر اور کمزور ہوتا ہے کہ اڑھائی سال بعد یعنی اکتوبر 1958 کو ملک کے پہلے مرد درویش سکندر مرزا کے ہاتھوں معطل کر دیا گیا۔

ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر کے اس ملک پر گیارہ سال کیلئے اندھوں اور اندھیروں کو مسلط کر دیتے ہیں۔

دوسرا درویش

چار سال بعد پھر ملک کے سیاسی افق پر سے دھوئیں کے بادل چھٹتے ہوئے نظر آتے ہیں تو لوگوں میں نئی امید جاگ اٹھتی ہے۔ مگر اس قوم کی قسمت میں لکھی خوشیاں مری کے موسم کی طرح غیر یقینی ہوتی ہیں۔

دوسرا آئین بھی پہلے آئین کی طرح 1969 کو ایوب خان کے جانشین یحییٰ خان کے ہاتھوں پامال ہوا۔ اسی دوران پاک بھارت جنگ بھی ہوئی جس میں دونوں فریقین کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔

جنگ کے بعد قوم متحد تھی بیرونی خطرات بھی کم ہو گئے تھے، ملک کے اندرونی معاملات بھی اتنے کشیدہ نہیں تھے پھر بھی آئین پاکستان کو قربان کر دیا گیا۔

دوسرے مارشل لاء کے بعد ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کے باعث غیر یقینی کی صورتحال تھی جس کا نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

سقوط ڈھاکہ کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آئین عوام اور ریاست کے درمیان مضبوط تعلق کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔جب آئین ہی نہ رہا تو بنگالی کس تعلق کی بنا پر پاکستان سے جڑے رہتے؟

1971 میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئی جمہوری ریاست کا دنیا کے نقشے پہ ظہور ہو ا۔ایک بار پھر پاکستان میں ہر طرف مایوسیت کے بادل چھا چکے تھے۔ اسلام کے نام پر بننے والا ملک قومیت کے نام پہ دو لخت ہو گیا ۔

سقوط ڈھاکہ سے لے کر پاکستان کے تیسرے متفقہ آئین کے پاس ہونے تک، ملک کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات ابتر رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان کا پہلا متفقہ آئین 1973 کو پاس ہوتا ہے جو کہ پہلے دونوں آئین کے نسبت قدرے مضبوط اور بالغ نظر آتا ہے۔

تیسرا درویش

ملک دو ٹکڑے ہو گیا ،مگر باقی ماندہ پاکستان میں جمہوری ناٹک جاری رہا۔ ملک میں جمہوری رہنماؤں کا زوال اور ملا ملٹری گٹھ جوڑ کا آغاز، قرارداد مقاصد سے ہوا۔ جس کا پہلا نتیجہ1958 کے مارشل لا کی شکل میں برآمد ہو ا ۔

قرارداد مقاصد کے بعد پاکستان میں تبدیل ہوتی سماجی ڈیمو گرافی پر بہت کم لکھا گیا ہے اور جو لکھا گیا اسے مختلف حیلوں بہانوں سے روکا گیا ۔ نتیجے میں ایسی نسل تیار ہوئی جو بطور فرد اپنی سماجی ساخت اور بطور انسان اپنے مقصد سے نابلد ہے۔

ملک میں تیسرے درویش کی آمد جولائی 1977 کو اس وقت ہوئی جب بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر چکے تھے۔جب بھٹو کو اس بات کا علم ہوا کہ ہمارے اختلافات کی وجہ سے ملک پر ایک بار پھر مارشل لاء کے بادل منڈلا رہے ہیں تو اس نے پاکستان قومی اتحاد سے معاہدہ کر لیا اور مذاکرات کامیاب ہوئے تو اگلی صبح ان دونوں فریقین کے درمیان دستخط ہونے تھے۔

مگر یہ دستخط کیونکر ہو پاتے! درویشوں کے امام ضیاء الحق نے اگلی صبح ہونے ہی نہ دی۔ اس ملک پر ایک مرتبہ پھر مارشل لاء کی طویل رات طاری کر دی، جو گیارہ برس تک مسلط رہی۔

اسی کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ 1973 کے آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اب تک جاری رہے۔حکمران کبھی وسیع تر قومی مفاد اور کبھی اپنے مفاد کی خاطر اس میں ترامیم کرتے رہے۔اب تک 1973 کے آئین میں 25 ترامیم ہو چکی ہیں۔

چوتھا درویش

افغان جنگ کے ایک مرحلے کا اختتام سوویت یونین کی شکست ساتھ ہوا تو ملک کی عسکری و سیاسی لیڈر شپ کے ولولے آسمان کو چھو رہے تھے۔ ملک اس وقت سیاسی رہنما نواز شریف اور عسکری درویش مشرف کے زیر سایہ چل رہا تھا۔

معاملات تب خراب ہوئے جب مشرف کو کارگل ایڈو نچر کا شوق چڑھا ۔ نواز شریف ملک عظیم کے چوتھے درویش کی خواہش کو پورا کرنے میں ہچکچائے تو غدار ٹھہرے اور سزا کے طور پر ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔

1999کو ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف نے وسیع تر ملکی مفاد کی خاطر منتخب جمہوری حکومت کو بر طرف کر کے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی قدم تھا جو اس سے پہلے بھی تین مرتبہ اٹھایا جا چکا تھا۔

لیکن اس بار اس کے نتیجے میں اس ملک پر ایسے اندھیرے مسلط ہوئے کہ ان اندھیروں کی کوکھ سے دہشت گردی برآمد ہوتی ہے جس کے نتیجے میں کم و بیش پچاس ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہو جاتے ہیں۔

آج پھر ملک کی سیاسی فضا انہیں اندھیروں کے لیے سازگار ماحول بنانے میں مصروف ہے جو ہم چار بار پہلے دیکھ چکے۔ ملک کا آئین ایک بار پھر کانپ رہا  ۔ معیشت اپنی بدترین سطح تک گر چکی ہے۔

ان حالات میں ملک و آئین کے ساتھ چھوٹی سی زیادتی بھی اتنی تباہی لا سکتی ہے کہ ہم ماضی کے چار درویشوں کو بھول جائیں گے۔ ملک کی سیاسی،عسکری اور عدلیہ کی ساری مشینری کو آئین و قانون کی پاسداری پر کاربند رہنا چاہیے ۔

کیونکہ آئین ہی ریاست کی بقا کا ضامن اور اس کی شناخت کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ اس کے بغیر تو ریاست کی تعریف بھی نا مکمل رہتی ہے۔ خدا کرے اس بار ریاست اپنی پوری شناخت اور مکمل تعریف برقرار رکھنے میں کامیاب ٹھہرے۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp